Monday 22 July 2013

Passand Apni Apni

Posted by Unknown on 04:08 with No comments
پسند اپنی اپنی
ہم گائوں میں رہتے تھے۔ ابا جی مقامی پرائیویٹ ہائی اسکول میں استاد تھے، جہاں سے ان کو اتنی تنخواہ ملتی تھی جس میں دس افراد کے کنبے کی مشکل سے گزر بسر ہو سکتی تھی۔ والد صاحب کو کاشتکاری کا شوق ورثے میں ملا تھا۔ لیکن آبائی زمین جو بھارت میں رہ گئی تھی اس کا کوئی متبادل قطعہ اراضی پاکستان میں ان کو نہیں ملا جس کی وجوہات مجھے معلوم نہیں۔

لیکن انھوں نے اپنے اس شوق کی تکمیل اس طرح سے کی کہ زرعی اراضی مالکان سے لیز (Lease) یعنی ٹھیکہ پر لے کر کاشت کاری شروع کر دی۔ کاشتکاری کے لیے زمین کبھی کسی مزارعہ کو نصف فصل کے عوض یعنی بٹائی پر دے دیتے تھے۔

یا ملازم رکھ کر ان سے کاشت کرواتے تھے ۔اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فصلوں کی کاشت اور برداشت میں ہمیں ملازموں کے ساتھ کام کرناپڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے گنے کی بوائی سے لے کر اس کی کٹائی اور چھلائی اپنے ہاتھوںسے کی۔ گندم کی کٹائی اور کپاس کی چنائی میں بھی حصہ لیا۔ کھیتوں کو پانی لگانے کے لیے ملازموں کے ساتھ ہم بھی جاتے تھے۔

کبھی کبھی ملازم کی چھٹی کے باعث ہمیں یہ آبی فریضہ خود ہی انجام دینا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جنوری کی یخ بستہ سردی میں میں کھیتوں کو پانی لگانے گیا تو پیچھے کھال کسی جگہ سے ٹوٹ گیا اور پانی آنا بند ہو گیا۔ چنانچہ رات کے اندھیرے میں کھال کے ساتھ ساتھ واپس نہر کے موگے کی طرف گیا۔ جو کئی میل کی دوری پر واقع تھا۔

نہر سے تھوڑا پہلے کھال ایک طرف سے ٹوٹا ہوا تھا اور پانی کسی اور کی زمین کے داخلی کھال میں جا رہا تھا۔ میں کھال میں داخل ہو گیا اور کَسّی کی مدد سے شگاف کو بند کرنے میں مصروف ہو گیا۔ پانی سرد اور بہائو تیز تھا اور میں کم عمر اور ناتجربہ کار۔ جب میں کافی دیر تک واپس نہ پہنچا تو ابا جی کو تشویش ہوئی اور وہ لالٹین ہاتھ میں لیے مجھے ڈھونڈتے وہاںپہنچ گئے۔

مجھے جب پانی میں ٹھٹھرتے، شگاف کو بند کرنے کی ناکام جدوجہد میں مصروف دیکھا تو مجھے کام سے روک دیا۔ جلدی سے قریبی بستی سے کاشتکاروں کو جگا کر لائے۔ انھوں نے آ کر شگاف بند کیا۔ ایک الائو روشن کیا جہاں ہم نے اپنے ہاتھ پائوں سینکے۔ اس وقت مجھے پتا چلا کہ پدرانہ شفقت کیا ہوتی ہے۔

کاشتکاری کی وجہ سے چارے کی فراہمی آسان ہو گئی تو گھر میں بھینسیں اور بکریاں بھی آگئیں۔ لیکن کھیتوں سے چارہ کاٹ کر گھر لانے کی ذمہ داری ہماری مقرر ہو گئی۔ چنانچہ میں اور میرے بھائی اپنے اپنے دور میں تقریباً دو تین میل کے فاصلے سے چارے کے گٹھے سائیکل پر یا سر پر اٹھا کر لاتے اور ٹوکہ مشین پر کترتے۔

بھینسوں کو تالاب پر پانی پلا کے لانا اور ان کو چارہ ونڈا ڈالنا بھی ہماری ذمہ داری تھی۔ ابا جی اور ہماری اس محنت اور ریاضت کا صلہ پروردگار نے یوں دیا کہ ابا جی کو حکومت کی طرف سے غیر مالک کاشتکار کے طور پر قرعہ اندازی میں ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی الاٹ ہو گئی۔ بعد میں ان کو اس کے حقوق ملکیت بھی مل گئے۔

اس لیے ہمارا گھر اجناس اور اشیائے خوردونوش سے بھرا رہتا تھا۔ گھر کے ایک بڑے کمرے میں گندم، چینی کی بوریاں نیچے سے اوپر تک تہہ در تہہ پڑی رہتی تھیں۔ ایک دوسرے کمرے میں کپاس کاذخیرہ کیا جاتا تھاجس میں ہر ہفتے کی چنائی کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ رات کو اسی کپاس پر بستر بچھا کر ہم سو بھی جاتے تھے۔ ہم سب بھائی میٹھی چیزیں کھانے کے شوقین تھے۔

ہم چینی کی بوری جو آسانی سے ہماری رسائی میں ہوتی تھی، کے کونے پر سوراخ کر لیتے تھے اور کھانا کھانے کے بعد یا ویسے ہی آتے جاتے ایک مٹھی بھر لیتے تھے۔ یہاں مجھے ایک شرارت یاد آتی ہے جو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کی تھی۔ انہی دنوں میں ہمارے گھر میں یوریا کھاد کی بوریاں لائی گئیں جو اتفاقاً چینی والی بوریوں کے قریب ہی رکھ دی گئیں۔

شام کو میں نے اپنے بھائی کو بتایا کہ چینی کی نئی بوریاں آئی ہیں اس نے پوچھا ’’کہاں‘‘؟ میں نے کہا ’’آئو میرے ساتھ۔‘‘ کمرے میں اندھیرا تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ کھاد کی بوری میں ڈال دیا۔ اس نے مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ جب اس نے رونا شروع کیا تو میں گھر سے باہر بھاگ گیا۔ برسوں بعد وہ بھائی میرے گھر آئے، جب ان کے سامنے چائے کا کپ رکھا تو میں نے کہا کہ اس میں چینی ڈال لیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے چینی کھانی اس وقت سے چھوڑ دی جب آپ نے مجھے یوریا کھاد کھلائی تھی۔

ہمارے گھر میں گنے، چھلیاں، دودھ، دہی، مکھن باافراط دستیاب ہوتے تھے۔ ہم یہ چیزیں بڑے شوق سے کھا تے تھے۔ میری بی جی بہت محنتی اور سُگھڑ خاتون تھیں۔ وہ علی الصبح اٹھ کر نماز سے فارغ ہو کر دودھ بلوتیں اور مکھن نکالتی تھیں۔ روزانہ صبح ناشتے میں روٹی، رات کا بچا ہوا سالن، دہی اور لسی ہوتی تھی۔ بی جی بہت نیک دل اور فیاض تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ روزوں کے مہینے میں وہ ہمسائیوں کو صبح لسی کے ساتھ باقاعدگی سے دہی بھی دیا کرتی تھیں۔

موسم سرما میں کھیتوں میں گنے، بیلنے میں پیڑے جاتے تھے اور ان کے رس کو کڑاہے میں ڈال کر گرم کیا جاتا تھا جب شیرہ گاڑھا ہو جاتا تو اسے لوہے کے ڈرموں میں ڈال کر محفوظ کر لیتے تھے۔ پھر اس شیرے کو ایک مشین میں ڈال کر کھانڈ یا چینی بنائی جاتی تھی۔ بعض اوقات تازہ شیرے کو خشک کر کے شکر یا گُڑ بھی بنایا جاتا تھا۔

ہمیں کھانے کے لیے یہ سب چیزیں مل جاتی تھیں ۔خصوصاً گنے کا رس تو ہمارا محبوب مشروب تھا۔ اس کو گھر بھی لایا جاتا تھا جہاں اسے کھیر بنانے کے لیے اور گُڑ کو میٹھے چاول پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ گنے کے رس میں کنو کا رس ملا کر پینا گائوں والوں کے لیے ایک عیاشی سے کم نہیں ہوتا تھا۔

ابا جی کو میٹھا بہت پسند تھا۔ کھانے کے بعد ضرور گُڑ یا کوئی میٹھی چیز کھاتے تھے۔ سردیوں میں ان کے کوٹ کی جیب میں گُڑ ضرور ہوتا تھا۔ کہیں مہمان بن کر بھی جاتے تو ان کے پاس اپنا گُڑ ضرور ہوتا تھا۔ کبھی کبھی موسم کے پھل جیسے آم، کنو، امرود، خربوزہ، تربوز، شہتوت اور بیر ہمیں کھانے کے لیے ملتے تھے۔

لیکن جو کچھ بھی ملتا تھا ہم بڑی رغبت سے کھا جاتے تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہمارے گھر میں کسی نے کبھی یہ کہا ہو کہ مجھے فلاں پھل یا فلاں سبزی پسند نہیں، اس لیے میں نہیں کھائوں گا۔ یہ ایک طرح کی ناشکری ہوتی جس کا اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی مجھے ملازمت مل گئی۔ دو سال بعد میری شادی ہو گئی۔ بیگم صاحبہ کا تعلق لاہور شہر سے تھا۔ انھوں نے آتے ہی ہمارے گھر میں چائے نوشی کی داغ بیل ڈالی۔ چائے ہمارے گھر میں کبھی کبھار بنائی جاتی تھی اور وہ بھی سردیوں میں۔ لیکن اب چائے کا سلسلہ موسموں کے تغیر و تبدل سے ماورا سارا سال چلنے لگا۔

بنیادی طور پر ہم دودھ لسی پینے والے لوگ تھے۔ میرے والد چونکہ ہر میٹھی چیز کو والہانہ رغبت سے کھاتے تھے ان کو میری بیگم کی چائے کی عادت بہت راس آئی۔ خود میں نے طویل قدامت پسندانہ مزاحمت کے بعد بیگم کے ترغیبی ہتھکنڈوں کے سامنے بالآخر ہتھیار ڈال دئیے۔ اس وقت میں تین کپ روزانہ چائے کا عادی ہو چکا ہوں۔ اگرچہ اب بھی کبھی کبھی میں پرانی عادت کے زیر اثر بھول جاتا ہوں کہ چائے نوش فرمانے کا وقت ہو چکا ہے۔

چائے کے علاوہ بیگم صاحبہ کو دال چاول اور مرغ پلائو بہت پسند تھے۔ چنانچہ یہی پسند میرے بچوں میں بھی در آئی۔ بیگم صاحبہ کے پسندیدہ پھل صرف آم ، آڑواور کنو ٹھہرے۔ ڈرائی فروٹ میں ان کو صرف چلغوزے پسند تھے، باقی چیزوں کو ان کی نظرِ التفات میسر نہیں ہوتی تھی۔ بیگم صاحبہ کی پسند اور ناپسند کے دائرے ہمیشہ بڑے واضح‘ اٹل اور غیر تغیر پذیر رہے‘ اگرچہ میرے بچے، شاید میری تقلید میں، ہر خشک و تر نعمت کو خوشی سے کھا لیتے تھے۔

لیکن میرے لیے حقیقی اذیت اور آزمائش کا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب میری دوسری نسل معرض وجود میں آئی اوراس نے اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرنا شروع کیا۔ میرے لیے یہ بات سوہانِ روح تھی کہ ہمارے پوتوں، نواسوں کے سامنے پھل دھرے ہوں اور وہ ان کو کھانے سے اس لیے انکار کردیں کہ وہ پھل ان کو پسند نہیں۔

صورت حال بہ ایں رسید کہ ایک بچے کو کیلاپسند نہیں تو دوسرا خربوزے کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ ایک کو بھنڈیاں پسند ہیں لیکن بینگن سخت ناپسند ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کے ناپسندیدہ پھل، سبزی یا مشروبات ان کے سامنے پڑے رہیں یہ ان کو ہاتھ نہیں لگائیں گے، خواہ کتنی ہی بھوک کیوں نہ لگی ہو۔

میں تو اب پھل سبزی وغیرہ لاتے وقت دس مرتبہ سوچتا ہوں کہ کیا لے کر جائوں اور کیا چھوڑوں۔ کیونکہ متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ میں اپنی پسند کا کوئی پھل گھر لے گیا۔ کسی نے اس کو ہاتھ نہ لگایا۔ میں خود ہی کئی دن تک اس کو کھاتا رہا کیونکہ میں نے تو آخر اس پر پیسے خرچ کیے تھے۔

گھر کے اندر یہ اختلافات شدت کے ساتھ قائم رکھے جاتے ہیں۔ جہاں ان سب کی پسند آپس میں مل جاتی ہے وہ ہے کے ایف سی، میکڈونلڈیا پیزاہٹ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ حد سے بڑھی ہوئی انفرادی اور ذاتی پسند و ناپسند ہمیں ایک دوسرے سے دور کرنے کا باعث تو نہیں بن رہی؟ کہیں اس سے ہمارا خاندانی ربط و ضبط کمزور تو نہیں ہو رہا؟

کہیں اس کی وجہ ہماری خوشحالی اور نعمتوں کی بہتات تو نہیں؟ اور کیا ہم اتنی ساری چیزوں کو ردّ کر کے نعمتوں کی ناشکری تو نہیں کر رہے؟ ہمارے اردگرد کتنے لوگ ہیں جن کو وہ چیزیں بھی میسر نہیں جن کو ہم ناپسند کرتے ہیں اور اکثر ضائع بھی کر دیتے ہیں

0 comments:

Post a Comment