Thursday 1 August 2013

ہجرت کا دوسرا سال

حضرت زبیر کی تاریخی برچھی

اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا ”عبیدہ” سر سے پاؤں تک لوہے کے لباس اور ہتھیاروں سے چھپا ہوا صف سے باہر نکلا اور یہ کہہ کر اسلامی لشکر کو للکارنے لگا کہ ”میں ابو کرش ہوں”
اس کی یہ مغرورانہ للکار سن کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن العوام رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اپنی برچھی لے کر مقابلہ کے لئے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں ہے جو لوہے سے چھپا ہوا نہ ہو۔
حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ وہ زمین پر گرا اور مر گیا۔ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی تھی۔ حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن اس کا سر مڑ کر خم ہو گیا۔ یہ برچھی ایک تاریخی یادگار بن کر برسوں تبرک بنی رہی۔
حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے یہ برچھی طلب فرما لی اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا پھر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس منتقل ہوتی رہی۔
پھر حضرت زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبدﷲ بن زبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کے پاس آئی یہاں تک کہ ۷۳ ھ میں جب بنو اُمیہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنو اُمیہ کے قبضہ میں چلی گئی پھر اس کے بعد لاپتہ ہو گئی۔
(بخاری غزوه بدر ج۲ ص۵۷۰)

0 comments:

Post a Comment