Thursday 1 August 2013

ہجرت کا دوسرا سال

ابوجہل ذلت کے ساتھ مارا گیا

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں صف میں کھڑا تھا اور میرے دائیں بائیں دو نو عمر لڑکے کھڑے تھے۔ ایک نے چپکے سے پوچھا کہ چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے اس سے کہا کہ کیوں بھتیجے! تم کو ابوجہل سے کیا کام ہے؟
اس نے کہا کہ چچا جان! میں نے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ میں ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ ﷲ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرت سے اس نوجوان کا منہ تاک رہا تھا کہ دوسرے نوجوان نے بھی مجھ سے یہی کہا اتنے میں ابوجہل تلوار گھماتا ہوا سامنے آ گیا اور میں نے اشارہ سے بتا دیا کہ ابوجہل یہی ہے، بس پھر کیا تھا یہ دونوں لڑکے تلواریں لے کر اس پر اس طرح جھپٹے جس طرح باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواروں سے مار مار کر ابوجہل کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔
یہ دونوں لڑکے حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم تھے جو ”عفراء” کے بیٹے تھے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے اپنے باپ کے قاتل حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کر دیا اور پیچھے سے ان کے بائیں شانہ پر تلوار ماری جس سے ان کا بازو کٹ گیا لیکن تھوڑا سا چمڑا باقی رہ گیا اور ہاتھ لٹکنے لگا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ کا پیچھا کیا اور دور تک دوڑایا مگر عکرمہ بھاگ کر بچ نکلا۔
حضرت معاذ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اس حالت میں بھی لڑتے رہے لیکن کٹے ہوئے ہاتھ کے لٹکنے سے زحمت ہو رہی تھی تو انہوں نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو پاؤں سے دبا کر اس زور سے کھینچا کہ تسمہ الگ ہو گیا اور پھر وہ آزاد ہو کر ایک ہاتھ سے لڑتے رہے۔ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ابوجہل کے پاس سے گزرے، اس وقت ابوجہل میں کچھ کچھ زندگی کی رمق باقی تھی۔ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی گردن کو اپنے پاؤں سے روند کر فرمایا کہ ”تو ہی ابوجہل ہے! بتا آج تجھے ﷲ نے کیسا رسوا کیا۔”
ابوجہل نے اس حالت میں بھی گھمنڈ کے ساتھ یہ کہا کہ تمہارے لئے یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے میرا قتل ہو جانا اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ایک آدمی کو اس کی قوم نے قتل کر دیا۔ ہاں! مجھے اس کا افسوس ہے کہ کاش! مجھے کسانوں کے سوا کوئی دوسرا شخص قتل کرتا۔
حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم چونکہ یہ دونوں انصاری تھے اور انصار کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور قبیلۂ قریش کے لوگ کسانوں کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اس لئے ابوجہل نے کسانوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کو اپنے لئے قابل افسوس بتایا۔

جنگ ختم ہو جانے کے بعد حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر جب ابوجہل کی لاش کے پاس سے گزرے تو لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابوجہل اس زمانے کا ”فرعون” ہے۔ پھر عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر تاجدار دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دیا۔
(بخاری غزوه بدر و دلائل النبوة ج۲ ص۱۷۳)

0 comments:

Post a Comment