ہجرت کا دوسرا سال
حضرت زینب کا ہار
جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالہ حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابو العاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ ”اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو” یہ سن کر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سر تسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت بی بی زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔
(تاريخ طبری ص ۱۳۴۸)
ابو العاص رہا ہو کر مدینہ سے مکہ آئے اور حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر تھے یہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آرہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں پر تقسیم بھی ہو گیا۔ ابو العاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو پناہ دے کر اپنے گھر میں اتارا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کر دو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارا مال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو العاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ آ کر حضرت بی بی زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔
(تاريخ طبری)
جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالہ حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابو العاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ ”اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو” یہ سن کر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سر تسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت بی بی زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔
(تاريخ طبری ص ۱۳۴۸)
ابو العاص رہا ہو کر مدینہ سے مکہ آئے اور حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر تھے یہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آرہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں پر تقسیم بھی ہو گیا۔ ابو العاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو پناہ دے کر اپنے گھر میں اتارا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کر دو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارا مال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو العاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ آ کر حضرت بی بی زینب رضی ﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔
(تاريخ طبری)
0 comments:
Post a Comment