ہجرت کا دوسرا سال
مقتولین بدر کا ماتم
بدر میں کفارِ قریش کی شکست فاش کی خبر جب مکہ میں پہنچی تو ایسا کہرام مچ گیا کہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سے کہ مسلمان ہم پر ہنسیں گے ابو سفیان نے تمام شہر میں اعلان کرا دیا کہ خبردار کوئی شخص رونے نہ پائے۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دو لڑکے ”عقیل” اور ”زمعہ” اور ایک پوتا ”حارث بن زمعہ” قتل ہوئے تھے۔ اس صدمۂ جان کاہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھا وہ چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تاکہ دل کی بھٹراس نکل جائے لیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور کڑھتا رہتا تھا اور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت کے رونے کی آواز آئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجا کہ دیکھو کون رو رہا ہے ؟ کیا بدر کے مقتولوں پر رونے کی اجازت ہو گئی ہے ؟ میرے سینے میں رنج و غم کی آگ سلگ رہی ہے، میں بھی رونے کے لیے بے قرار ہوں۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے وہ اسی غم میں رو رہی ہے۔ اسود شاعر تھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے یہ درد ناک اشعار نکل پڑے جس کے لفظ لفظ سے خون ٹپک رہا ہے
اَتَبْکِيْ اَنَ يَّضِلَّ لَهَا بَعِيْرٌ وَ يَمْنَعُهَا مِنَ النَّوْمِ السُّهُوْدُ
کیا وہ عورت ایک اونٹ کے گم ہو جانے پر رو رہی ہے؟ اور بے خوابی نے اس کی نیند کو روک دیا ہے۔
فَلاَ تَبْکِیْ عَلٰی بَکْرٍ وَّ لٰکِنْ عَلٰی بَدْرٍ تَقَاصَرَتِ الْجُدُوْدُ
تو وہ ایک اونٹ پر نہ روئے لیکن “بدر” پر روئے جہاں قسمتوں نے کوتا ہی کی ہے۔
وَ بَکِّيْ اِنْ بَکَيْتِ عَلٰي عَقِيْلٍ وَ بَکِّیْ حَارِثًا اَسَدَ الْاُسُوْدِ
اگر تجھ کو رونا ہے تو “عقیل” پر رویا کر اور “حارث” پر رویا کر جو شیروں کا شیر تھا۔
وَبَکِّيْهِمْ وَ لَا تَسَمِيْ جَمِيْعًا وَ مَا لِاَبِيْ حَکِيْمَةَ مِنْ نَدِيْد
اور ان سب پر رویا کر مگر ان سبھوں کا نام مت لے اور ”ابو حکیمہ” ”زمعہ” کا تو کوئی ہمسر ہی نہیں ہے۔
(ابن هشام ج ۲ص ۶۵۷)
بدر میں کفارِ قریش کی شکست فاش کی خبر جب مکہ میں پہنچی تو ایسا کہرام مچ گیا کہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سے کہ مسلمان ہم پر ہنسیں گے ابو سفیان نے تمام شہر میں اعلان کرا دیا کہ خبردار کوئی شخص رونے نہ پائے۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دو لڑکے ”عقیل” اور ”زمعہ” اور ایک پوتا ”حارث بن زمعہ” قتل ہوئے تھے۔ اس صدمۂ جان کاہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھا وہ چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تاکہ دل کی بھٹراس نکل جائے لیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور کڑھتا رہتا تھا اور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت کے رونے کی آواز آئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجا کہ دیکھو کون رو رہا ہے ؟ کیا بدر کے مقتولوں پر رونے کی اجازت ہو گئی ہے ؟ میرے سینے میں رنج و غم کی آگ سلگ رہی ہے، میں بھی رونے کے لیے بے قرار ہوں۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے وہ اسی غم میں رو رہی ہے۔ اسود شاعر تھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے یہ درد ناک اشعار نکل پڑے جس کے لفظ لفظ سے خون ٹپک رہا ہے
اَتَبْکِيْ اَنَ يَّضِلَّ لَهَا بَعِيْرٌ وَ يَمْنَعُهَا مِنَ النَّوْمِ السُّهُوْدُ
کیا وہ عورت ایک اونٹ کے گم ہو جانے پر رو رہی ہے؟ اور بے خوابی نے اس کی نیند کو روک دیا ہے۔
فَلاَ تَبْکِیْ عَلٰی بَکْرٍ وَّ لٰکِنْ عَلٰی بَدْرٍ تَقَاصَرَتِ الْجُدُوْدُ
تو وہ ایک اونٹ پر نہ روئے لیکن “بدر” پر روئے جہاں قسمتوں نے کوتا ہی کی ہے۔
وَ بَکِّيْ اِنْ بَکَيْتِ عَلٰي عَقِيْلٍ وَ بَکِّیْ حَارِثًا اَسَدَ الْاُسُوْدِ
اگر تجھ کو رونا ہے تو “عقیل” پر رویا کر اور “حارث” پر رویا کر جو شیروں کا شیر تھا۔
وَبَکِّيْهِمْ وَ لَا تَسَمِيْ جَمِيْعًا وَ مَا لِاَبِيْ حَکِيْمَةَ مِنْ نَدِيْد
اور ان سب پر رویا کر مگر ان سبھوں کا نام مت لے اور ”ابو حکیمہ” ”زمعہ” کا تو کوئی ہمسر ہی نہیں ہے۔
(ابن هشام ج ۲ص ۶۵۷)
0 comments:
Post a Comment