ہجرت کا تیسرا سال
تاجدارِ دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میدان جنگ میں
غزوة اُحد
مشرکین تو ۱۲ شوال ۳ ھ بدھ کے دن ہی مدینہ کے قریب پہنچ کر کوہِ اُحد پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے مگر حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ۱۴ شوال ۳ ھ بعد نماز جمعہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ رات کو بنی نجار میں رہے اور ۱۵ شوال سنیچر کے دن نماز فجر کے وقت اُحد میں پہنچے۔ حضرت بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اذان دی اور آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھا کر میدان جنگ میں مورچہ بندی شروع فرمائی۔ حضرت عکاشہ بن محصن اسدی کو لشکر کے میمنہ (دائیں بازو) پر اور حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی کو میسرہ (بائیں بازو) پر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح و حضرت سعد بن ابی وقاص کو مقدمہ (اگلے حصہ) پر اور حضرت مقداد بن عمرو کو ساقہ( پچھلے حصہ) پر افسر مقرر فرمایا (رضی ﷲ تعالیٰ عنہم) اور صف بندی کے وقت اُحد پہاڑ کو پشت پر رکھا اور کوہ عینین کو جو وادی قناۃ میں ہے اپنے بائیں طرف رکھا۔ لشکر کے پیچھے پہاڑ میں ایک درہ (تنگ راستہ) تھا جس میں سے گزر کر کفارِ قریش مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے سے حملہ آور ہو سکتے تھے اس لئے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس درہ کی حفاظت کے لئے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر فرما دیا اور حضرت عبدﷲ بن جبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو اس دستہ کا افسر بنا دیا اور یہ حکم دیا کہ دیکھو ہم چاہے مغلوب ہوں یا غالب مگر تم لوگ اپنی اس جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس کسی کو نہ بھیجوں۔
(مدارج جلد۲ ص۱۱۵ و بخاری باب ما يکره من التنازع)
مشرکین نے بھی نہایت باقاعدگی کے ساتھ اپنی صفوں کو درست کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لشکر کے میمنہ پر خالد بن ولید کو اور میسرہ پر عکرمہ بن ابو جہل کو افسر بنا دیا، سواروں کا دستہ صفوان بن اُمیہ کی کمان میں تھا۔ تیر اندازوں کا ایک دستہ الگ تھا جن کا سردار عبدﷲ بن ربیعہ تھا اور پورے لشکر کا علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ تھا جو قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک آدمی تھا۔
(مدارج جلد۲ ص۱۱۵)
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ پورے لشکر کفار کا علمبردار قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک شخص ہے تو آپ نے بھی اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا جو قبیلۂ بنو عبدالدار سے تعلق رکھتے تھے۔
غزوة اُحد
مشرکین تو ۱۲ شوال ۳ ھ بدھ کے دن ہی مدینہ کے قریب پہنچ کر کوہِ اُحد پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے مگر حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ۱۴ شوال ۳ ھ بعد نماز جمعہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ رات کو بنی نجار میں رہے اور ۱۵ شوال سنیچر کے دن نماز فجر کے وقت اُحد میں پہنچے۔ حضرت بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اذان دی اور آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھا کر میدان جنگ میں مورچہ بندی شروع فرمائی۔ حضرت عکاشہ بن محصن اسدی کو لشکر کے میمنہ (دائیں بازو) پر اور حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی کو میسرہ (بائیں بازو) پر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح و حضرت سعد بن ابی وقاص کو مقدمہ (اگلے حصہ) پر اور حضرت مقداد بن عمرو کو ساقہ( پچھلے حصہ) پر افسر مقرر فرمایا (رضی ﷲ تعالیٰ عنہم) اور صف بندی کے وقت اُحد پہاڑ کو پشت پر رکھا اور کوہ عینین کو جو وادی قناۃ میں ہے اپنے بائیں طرف رکھا۔ لشکر کے پیچھے پہاڑ میں ایک درہ (تنگ راستہ) تھا جس میں سے گزر کر کفارِ قریش مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے سے حملہ آور ہو سکتے تھے اس لئے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس درہ کی حفاظت کے لئے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر فرما دیا اور حضرت عبدﷲ بن جبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو اس دستہ کا افسر بنا دیا اور یہ حکم دیا کہ دیکھو ہم چاہے مغلوب ہوں یا غالب مگر تم لوگ اپنی اس جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس کسی کو نہ بھیجوں۔
(مدارج جلد۲ ص۱۱۵ و بخاری باب ما يکره من التنازع)
مشرکین نے بھی نہایت باقاعدگی کے ساتھ اپنی صفوں کو درست کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لشکر کے میمنہ پر خالد بن ولید کو اور میسرہ پر عکرمہ بن ابو جہل کو افسر بنا دیا، سواروں کا دستہ صفوان بن اُمیہ کی کمان میں تھا۔ تیر اندازوں کا ایک دستہ الگ تھا جن کا سردار عبدﷲ بن ربیعہ تھا اور پورے لشکر کا علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ تھا جو قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک آدمی تھا۔
(مدارج جلد۲ ص۱۱۵)
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ پورے لشکر کفار کا علمبردار قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک شخص ہے تو آپ نے بھی اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا جو قبیلۂ بنو عبدالدار سے تعلق رکھتے تھے۔
0 comments:
Post a Comment