Thursday 22 August 2013

Siriyah Najad...سریۂ نجد

Posted by Unknown on 00:00 with No comments
ہجرت کا چھٹا سال

سریۂ نجد

۶ھ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں ایک لشکر نجد کی جانب روانہ فرمایا۔ ان لوگوں نے بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اُثال کو گرفتار کر لیا اور مدینہ لائے۔ جب لوگوں نے ان کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا جائے۔ چنانچہ یہ ستون میں باندھ دیئے گئے۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا کہ اے ثمامہ! تمہارا کیا حال ہے؟ اور تم اپنے بارے میں کیا گمان رکھتے ہو؟ ثمامہ نے جواب دیا کہ اے محمد! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا حال اور خیال تو اچھا ہی ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر مجھے اپنے انعام سے نواز کر چھوڑ دیں گے تو ایک شکر گزار کو چھوڑیں گے اور اگر آپ مجھ سے کچھ مال کے طلبگار ہوں تو بتا دیجئے۔ آپ کو مال دیا جائے گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ گفتگو کر کے چلے آئے۔ پھر دوسرے روز بھی یہی سوال و جواب ہوا۔ پھر تیسرے روز بھی یہی ہوا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ چنانچہ لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ ثمامہ مسجد سے نکل کر ایک کھجور کے باغ میں چلے گئے جو مسجد نبوی کے قریب ہی میں تھا۔ وہاں انہوں نے غسل کیا۔ پھر مسجد نبوی میں واپس آئے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم! مجھے جس قدر آپ کے چہرہ سے نفرت تھی اتنی روئے زمین پر کسی کے چہرہ سے نہ تھی۔ مگر آج آپ کے چہرہ سے مجھے اس قدر محبت ہو گئی ہے کہ اتنی محبت کسی کے چہرہ سے نہیں ہے۔ کوئی دین میری نظر میں اتنا ناپسند نہ تھا جتنا آپ کا دین لیکن آج کوئی دین میری نظر میں اتنا محبوب نہیں ہے جتنا آپ کا دین۔ کوئی شہر میری نگاہ میں اتنا برا نہ تھا جتنا آپ کا شہر اور اب میرا یہ حال ہوگیا ہے کہ آپ کے شہر سے زیادہ مجھے کوئی شہر محبوب نہیں ہے۔ یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عمرہ ادا کرنے کے ارادہ سے مکہ جا رہا تھا کہ آپ کے لشکر نے مجھے گرفتار کر لیا۔ اب آپ میرے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا مژدہ سنایا اور پھر حکم دیا کہ تم مکہ جا کر عمرہ ادا کرلو!

جب یہ مکہ پہنچے اور طواف کرنے لگے تو قریش کے کسی کافر نے ان کو دیکھ کر کہا کہ اے ثمامہ! تم صابی (بے دین) ہو گئے ہو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ میں بے دین نہیں ہوا ہوں بلکہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور اے اہل مکہ! سن لو! اب جب تک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اجازت نہ دیں گے تم لوگوں کو ہمارے وطن سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں مل سکے گا۔ مکہ والوں کے لئے ان کے وطن ”یمامہ” ہی سے غلہ آیا کرتا تھا۔
(بخاری ج۲ ص۶۲۷ باب وفد بني حنيفه و حديث ثمامه و مسلم ج۲ ص۹۳ باب ربط الاسير و مدارج ج۲ ص۱۸۹ )

0 comments:

Post a Comment