Sunday, 11 August 2013

ہجرت کا دوسرا سال

عمیر اور صفوان کی خوفناک سازش

ایک دن عمیر اور صفوان دونوں حطیم کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر پر آنسو بہا رہے تھے۔ ایک دم صفوان بول اُٹھا کہ اے عمیر! میرا باپ اور دوسرے روسائے مکہ جس طرح بدر میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میں دل پاش پاش ہو رہا ہے اور اب زندگی میں کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔
عمیر نے کہا کہ اے صفوان! تم سچ کہتے ہو میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، میرے اعزہ و اقرباء بھی بدر میں بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میرا بیٹا مسلمانوں کی قید میں ہے۔ خدا کی قسم! اگر میں قرضدار نہ ہوتا اور بال بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتا تو ابھی ابھی میں تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ جاتا اور دم زدن میں دھوکہ سے محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔
یہ سن کر صفوان نے کہا کہ اے عمیر! تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو۔ میں خدا کے گھر میں عہد کرتا ہوں کہ تمہارا سارا قرض ادا کردوں گا اور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہوں۔ اس معاہدہ کے بعد عمیر سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہوئی تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جب مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب پہنچا تو حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کا گلہ دبائے اور گردن پکڑے ہوئے دربار رسالت میں لے گئے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں عمیر! کس ارادہ سے آئے ہو؟ جواب دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اور صفوان نے حطیم کعبہ میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے؟ عمیر یہ راز کی بات سن کر سناٹے میں آ گیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ ﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم! میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ ادھر مکہ میں صفوان حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی خبر سننے کے لیے انتہائی بے قرار تھا اور دن گن گن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر مسلمان ہو گیا تو فرطِ حیرت سے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا گیا۔
(تاريخ طبری ص۱۳۵۴)

0 comments:

Post a Comment