Tuesday 6 August 2013

ہجرت کا دوسرا سال

قیدیوں کے ساتھ سلوک

کفار مکہ جب اسیران جنگ بن کر مدینہ میں آئے توان کو دیکھنے کے لئے بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور لوگ ان کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ بولتے رہے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی سودہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا ان قیدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لائیں اور یہ دیکھا کہ ان قیدیوں میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار ”سہیل” بھی ہیں تو وہ بے ساختہ بول اٹھیں کہ ”اے سہیل! تم نے بھی عورتوں کی طرح بیڑیاں پہن لیں تم سے یہ نہ ہو سکا کہ بہادر مردوں کی طرح لڑتے ہوئے قتل ہو جاتے۔”
(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۴۵)

ان قیدیوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں تقسیم فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ ان قیدیوں کو آرام کے ساتھ رکھا جائے۔ چنانچہ دو دو، چار چار قیدی صحابہ کے گھروں میں رہنے لگے اور صحابہ نے ان لوگوں کے ساتھ یہ حسن سلوک کیا کہ ان لوگوں کو گوشت روٹی وغیرہ حسب مقدور بہترین کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔
(ابن هشام ج ۲ ص ۶۴۶)

قیدیوں میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے بدن پر کرتا نہیں تھا لیکن وہ اتنے لمبے قد کے آدمی تھے کہ کسی کا کرتا ان کے بدن پر ٹھیک نہیں اترتا تھا عبدﷲ بن اُبی(منافقین کا سردار) چونکہ قد میں ان کے برابر تھا اس لئے اس نے اپنا کرتا ان کو پہنا دیا۔ بخاری میں یہ روایت ہے کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبدﷲ بن اُبی کے کفن کے لئے جو اپنا پیراہن شریف عطا فرمایا تھا وہ اسی احسان کا بدلہ تھا۔
(بخاری باب الکسوة للاساری ج۱ ص۴۲۲)

0 comments:

Post a Comment