حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وعدہ پورا کرنے کی عادت
جنگ حنین میں فتح کے بعد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز انتظار کیا کہ جنگ حنین کے قیدیوں کے
رشتے دار آئیں تو ان سے ان کی رہائی کی بات کر یں۔ لیکن جب کئی دن گزرنے کے
بعد بھی کوئی نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت اور قیدی
مسلمانو ں میں تقسیم کر دیے۔ جب تقسیم ہو چکی تو قبیلہ ہوازن کا جس نے حنین
میں مسلمانوں سے جنگ کی تھی، ایک وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا
اور کہنے لگا : ” یارسول اللہ ! ہم لوگ
شریف خاندان ہیں۔ ہم پر جو مصیبت آئی ہے، وہ آپ کو معلوم ہے، حضور ہم پر
احسان فرمائیں، اللہ آپ پر احسان فرمائے گا۔ “
اس قبیلے کے ایک سردار زہیر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جو عورتیں یہاں قید ہیں، ان میں آپ کی پھوپھیاں، خالا ئیں اور وہ عورتیں ہیں جنہو ں نے آپ کی پرورش کی ہے۔ اللہ کی قسم، اگر عرب کے با دشا ہو ں میں کسی نے ہمارے خاندان کا دودھ پیا ہو تاتو ان سے کچھ امیدیں ہوتیں لیکن آپ سے تو بہت امیدیں ہیں۔ “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ”اچھا، یہ بتاﺅ کہ تمہیں اپنی عورتیں اور اولاد زیادہ پیاری ہے یا مال و اسباب ؟“ انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ،جب آپ نے ہمیں ایک چیز لینے کا اختیار دیا ہے تو ہماری اولاد اورعورتیں ہمیں دے دیجیے۔ یہ ہمیں زیادہ پیاری ہیں۔ “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ ’ میں نے تمہارا کئی دن انتظار کیا لیکن تم نہ آئے۔ میں نے مال غنیمت اور قیدی مسلمانو ں میں تقسیم کر دیے۔ میرے اور میرے خاندان کے حصے میں جو قیدی آئے ہیں وہ تو میں نے تمہیں دیے، باقی رہے دوسرے قیدی، تو ان کے لیے یہ تدبیر ہے کہ جب میں نما ز پڑھ چکو ں تو تم مجمع میں کھڑے ہو کر کہنا کہ ہم رسول اللہ کو شفیع ٹھہرا کر مسلمانوں سے اور مسلمانو ں کو شفیع ٹھہراکر رسول اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری اولاد اور ہماری عورتیں ہمیں واپس کر دی جائیں۔ اس وقت میں اپنے اور اپنے خاندان کے قیدی واپس کر دو ں گا اور باقی قیدیوں کے لیے مسلمانو ں سے کہوں گا۔ “ چنا نچہ ہو ازن کے آدمیو ں نے ایسا ہی کیا اور نماز کے بعد اپنی درخواست پیش کر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ تمہیں دیا“
انصار اور مہا جرین یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ رسول اللہ تو اپنے حصے کے قیدی چھوڑ دیں اور وہ ان کو اپنی قید میں رکھیں۔ انھو ں نے فوراً ایک زبان ہو کر عرض کیا : ” ہم نے بھی اپنا حصہ حضور کی نذر کیا۔“ اس طر ح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہوازن سے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ان کے چھ ہزار قیدی واپس کر دیے۔
اس قبیلے کے ایک سردار زہیر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جو عورتیں یہاں قید ہیں، ان میں آپ کی پھوپھیاں، خالا ئیں اور وہ عورتیں ہیں جنہو ں نے آپ کی پرورش کی ہے۔ اللہ کی قسم، اگر عرب کے با دشا ہو ں میں کسی نے ہمارے خاندان کا دودھ پیا ہو تاتو ان سے کچھ امیدیں ہوتیں لیکن آپ سے تو بہت امیدیں ہیں۔ “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ”اچھا، یہ بتاﺅ کہ تمہیں اپنی عورتیں اور اولاد زیادہ پیاری ہے یا مال و اسباب ؟“ انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ،جب آپ نے ہمیں ایک چیز لینے کا اختیار دیا ہے تو ہماری اولاد اورعورتیں ہمیں دے دیجیے۔ یہ ہمیں زیادہ پیاری ہیں۔ “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ ’ میں نے تمہارا کئی دن انتظار کیا لیکن تم نہ آئے۔ میں نے مال غنیمت اور قیدی مسلمانو ں میں تقسیم کر دیے۔ میرے اور میرے خاندان کے حصے میں جو قیدی آئے ہیں وہ تو میں نے تمہیں دیے، باقی رہے دوسرے قیدی، تو ان کے لیے یہ تدبیر ہے کہ جب میں نما ز پڑھ چکو ں تو تم مجمع میں کھڑے ہو کر کہنا کہ ہم رسول اللہ کو شفیع ٹھہرا کر مسلمانوں سے اور مسلمانو ں کو شفیع ٹھہراکر رسول اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری اولاد اور ہماری عورتیں ہمیں واپس کر دی جائیں۔ اس وقت میں اپنے اور اپنے خاندان کے قیدی واپس کر دو ں گا اور باقی قیدیوں کے لیے مسلمانو ں سے کہوں گا۔ “ چنا نچہ ہو ازن کے آدمیو ں نے ایسا ہی کیا اور نماز کے بعد اپنی درخواست پیش کر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ تمہیں دیا“
انصار اور مہا جرین یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ رسول اللہ تو اپنے حصے کے قیدی چھوڑ دیں اور وہ ان کو اپنی قید میں رکھیں۔ انھو ں نے فوراً ایک زبان ہو کر عرض کیا : ” ہم نے بھی اپنا حصہ حضور کی نذر کیا۔“ اس طر ح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہوازن سے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ان کے چھ ہزار قیدی واپس کر دیے۔
0 comments:
Post a Comment