حضرت عائشہ صدیقہ کے حالات زندگی۔ ۔ ۔
امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خلیفۂ اوّل سیّدنا
ابو بکر صدیق اکبر کی بیٹی ہیں، ان کی ماں کا نام امِّ رومان زینب ہے ان کا
سلسلہ بھی نسبِ نبوی میں کنانہ سے جاملتا ہے، آپ کا نکاح شوال ۱۰ ھ نبوت
(یعنی اعلان کے دسویں سال) مکہ معظمہ میں ہوا اور رخصتی شوال ۱۱ ھ میں
مدینہ منورہ میں ہوئی۔
امّہات المومنین میں یہی وہ خاتون ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر (دودھ) سے پرورش ہوئی اور امّہات المومنین میں یہی وہ طیبہ طاہرہ ہیں جن کا پہلا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو من جانب اللہ قرار دیا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ مردوں میں بہت سے لوگ تکمیل کے درجے کو پہنچتے مگر عورتوں کے اندر صرف مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل کو پہنچی۔ اور عائشہ کو تو سب عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو سب کھانوں پر ہے‘‘ اسی میں حضرت امِّ المومنین امِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ یہ عائشہ ہی ہے کہ میں اس کے لحاف میں ہوتا ہوں تو اس وقت بھی وحی کا نزول ہوتا ہے مگر دیگر ازواج کے بستروں پر کبھی ایسا نہ ہوا‘‘۔
یہی وجہ تھی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمۃ الزہرا سے فرمایا: ’’ پیاری بیٹی! جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تو اس سے محبت نہیں رکھتی، عرض کیا ضرور یہی ہوگا، ارشاد فرمایا کہ تب تو بھی عائشہ سے محبت رکھا کر‘‘۔
امّہات المومنین میں یہی وہ خاتون ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر (دودھ) سے پرورش ہوئی اور امّہات المومنین میں یہی وہ طیبہ طاہرہ ہیں جن کا پہلا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو من جانب اللہ قرار دیا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ مردوں میں بہت سے لوگ تکمیل کے درجے کو پہنچتے مگر عورتوں کے اندر صرف مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل کو پہنچی۔ اور عائشہ کو تو سب عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو سب کھانوں پر ہے‘‘ اسی میں حضرت امِّ المومنین امِّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ یہ عائشہ ہی ہے کہ میں اس کے لحاف میں ہوتا ہوں تو اس وقت بھی وحی کا نزول ہوتا ہے مگر دیگر ازواج کے بستروں پر کبھی ایسا نہ ہوا‘‘۔
یہی وجہ تھی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمۃ الزہرا سے فرمایا: ’’ پیاری بیٹی! جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تو اس سے محبت نہیں رکھتی، عرض کیا ضرور یہی ہوگا، ارشاد فرمایا کہ تب تو بھی عائشہ سے محبت رکھا کر‘‘۔
(بخاری ومسلم)
حضرت عائشہ صدیقہ کے کمالاتِ عالیہ پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جیسے بخار ی و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا: ’’یہ جبریل ہیں اور تم کو سلام کہتے ہیں ‘‘ حضرت عائشہ نے جواب میں فرمایا کہ ان پر بھی اللہ کی سلامتی اور رحمتِ ہو۔
جنگِ بدر میں جس نشان کے تحت ملائکہ نے خدمتِ اسلام ادا کی اور جس نشان پر اللہ کی اوّلین نصرت و فتح نازل ہوئی وہ نشان حضرت عائشہ صدیقہ کی اوڑھنی کا بنایا گیا تھا اور یہ امر آپ کی بڑی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے (سیرتِ جلی) ۔
جن دنوں جنگِ جمل کی ابتداء تھی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدِ کوفہ میں مولیٰ علی مرتضیٰ کے جاںثاروں کے سامنے فرمایا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مبارکہ ہیں دنیا و آخرت میں‘‘۔
ایک غزوہ میں آپ کی سواری کیمپ میں دیر سے پہنچی تو اس پر منافقین نے ان کی شان پاک میں گستاخانہ کلمات کہے، چند مسلمان بھی ان کے بھّرے میں آگئے۔ جنسِ لطیف وصنفِ نازک کے لیے ایسا موقع سخت پریشان کن ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت بھی ان کی قوت ایمانیہ اور پاکی فطرت کی عجیب شانِ نظر آئی۔ خود فرماتی ہیں کہ مجھے اپنی پاکدامنی کی وجہ سے یقینِ کامل تھا کہ میری طہارت و پاکیزگی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں بتا دیا جائے گا مگر اس کا مجھے شان گمان بھی نہ تھا کہ میرے حق میں وحی الٰہی نزول ہوگا۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کو دودھ پیتے بچے اور حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی گواہی سے لوگوں کی بد گمانی سے نجات بخشی اور جب حضرت صدیقہ عائشہ طیبہ پر بہتان اٹھا تو خود ان کی پاکدامنی کی گواہی دی اور سترہ آیتیں نازل فرمائیں اگر چاہتا ایک ایک درخت اور پتھر سے گواہی دلواتا مگر منظور یہ ہوا کہ محبوبہ محبوب کی طہارت و پاکدامنی پر خود گواہی دیں اور عزت و امتیاز ان کا بڑھائیں (تجلی الیقین) قرآن پاک اترا مولائے کریم نے صدیقہ کی نصرت فرمائی، بے قصوری ظاہر کی، ان کو طیبہ ٹھہرایا اور خبر دی کہ مغفرت اور رزقِ کریم ان ہی کے لیے ہے۔
غرض یہ وہ ہیں کہ ان کی پاکیزگی اور پاکدامنی کی آواز سے زمین و آسمان گونج اٹھے اور وہ وحی اتری جس کی قیامت تک نمازوں میں اور محرابوں میں تلاوت کی جائے گی۔ پھر جو تَفَقّہ انہوں نے دین میں پایا اور جو تبلیغ انہوں نے امت کو فرمائی اور علم نبوت کی اشاعت میں جو کوششیں انہوں نے فرمائیں اور جو علمی خزانے اور گنجینے انہوں نے فرزندانِ امتِ مرحومہ کو پہنچائے و ہ ایسی فضیلت ہے جو ازواج میں سے کسی دوسری ام المومنین کو نصیب نہیں۔
کتبِ احادیث میں ان کی روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے ۔ فتاویٰ شرعیہ اور علمی دقائق کا حل اور دوسری علمی خدمات کا شمار ان کے علاوہ ہے۔
صدیقہ عائشہ نے ۶۲ سال کی عمر میں ۱۷ رمضان المبارک ۵۷ کومدینہ طیبہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں استراحت فرمائی۔
حضرت عائشہ صدیقہ کے کمالاتِ عالیہ پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جیسے بخار ی و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا: ’’یہ جبریل ہیں اور تم کو سلام کہتے ہیں ‘‘ حضرت عائشہ نے جواب میں فرمایا کہ ان پر بھی اللہ کی سلامتی اور رحمتِ ہو۔
جنگِ بدر میں جس نشان کے تحت ملائکہ نے خدمتِ اسلام ادا کی اور جس نشان پر اللہ کی اوّلین نصرت و فتح نازل ہوئی وہ نشان حضرت عائشہ صدیقہ کی اوڑھنی کا بنایا گیا تھا اور یہ امر آپ کی بڑی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے (سیرتِ جلی) ۔
جن دنوں جنگِ جمل کی ابتداء تھی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدِ کوفہ میں مولیٰ علی مرتضیٰ کے جاںثاروں کے سامنے فرمایا کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ عائشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مبارکہ ہیں دنیا و آخرت میں‘‘۔
ایک غزوہ میں آپ کی سواری کیمپ میں دیر سے پہنچی تو اس پر منافقین نے ان کی شان پاک میں گستاخانہ کلمات کہے، چند مسلمان بھی ان کے بھّرے میں آگئے۔ جنسِ لطیف وصنفِ نازک کے لیے ایسا موقع سخت پریشان کن ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت بھی ان کی قوت ایمانیہ اور پاکی فطرت کی عجیب شانِ نظر آئی۔ خود فرماتی ہیں کہ مجھے اپنی پاکدامنی کی وجہ سے یقینِ کامل تھا کہ میری طہارت و پاکیزگی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں بتا دیا جائے گا مگر اس کا مجھے شان گمان بھی نہ تھا کہ میرے حق میں وحی الٰہی نزول ہوگا۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کو دودھ پیتے بچے اور حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی گواہی سے لوگوں کی بد گمانی سے نجات بخشی اور جب حضرت صدیقہ عائشہ طیبہ پر بہتان اٹھا تو خود ان کی پاکدامنی کی گواہی دی اور سترہ آیتیں نازل فرمائیں اگر چاہتا ایک ایک درخت اور پتھر سے گواہی دلواتا مگر منظور یہ ہوا کہ محبوبہ محبوب کی طہارت و پاکدامنی پر خود گواہی دیں اور عزت و امتیاز ان کا بڑھائیں (تجلی الیقین) قرآن پاک اترا مولائے کریم نے صدیقہ کی نصرت فرمائی، بے قصوری ظاہر کی، ان کو طیبہ ٹھہرایا اور خبر دی کہ مغفرت اور رزقِ کریم ان ہی کے لیے ہے۔
غرض یہ وہ ہیں کہ ان کی پاکیزگی اور پاکدامنی کی آواز سے زمین و آسمان گونج اٹھے اور وہ وحی اتری جس کی قیامت تک نمازوں میں اور محرابوں میں تلاوت کی جائے گی۔ پھر جو تَفَقّہ انہوں نے دین میں پایا اور جو تبلیغ انہوں نے امت کو فرمائی اور علم نبوت کی اشاعت میں جو کوششیں انہوں نے فرمائیں اور جو علمی خزانے اور گنجینے انہوں نے فرزندانِ امتِ مرحومہ کو پہنچائے و ہ ایسی فضیلت ہے جو ازواج میں سے کسی دوسری ام المومنین کو نصیب نہیں۔
کتبِ احادیث میں ان کی روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے ۔ فتاویٰ شرعیہ اور علمی دقائق کا حل اور دوسری علمی خدمات کا شمار ان کے علاوہ ہے۔
صدیقہ عائشہ نے ۶۲ سال کی عمر میں ۱۷ رمضان المبارک ۵۷ کومدینہ طیبہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں استراحت فرمائی۔
0 comments:
Post a Comment