درود شریف میں حکمت کیا ہے؟
ہر مسلمان جانتا ہے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ، دولتِ
ایمان و عرفان نصیب ہوئی، دنیا جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے علم کی روشنی سے دل و دماغ منور و روشن فرمایا، دنیا وحشت و حیوانیت میں
مبتلا تھی، حضور نے بہترین انسانی زیور یعنی اخلاقِ حسنہ سے آراستہ کیا اس
لیے اس احسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے ہور ہیں، آپ کے ذکر میں
ہمہ تن مصروف رہیں اور آپ کے گرویدہ بن جائیں اور زیادہ سے زیادہ آپ کے
ساتھ نیازمندانہ تعلق رکھیں اور آپ کے منصبِ رفیع میں روز افزوں ترقی کے
لیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے رہیں، اور یہ مقصود درود شریف سے بھی حاصل
ہوتا ہے اور آسانی اس میں یہ ہے کہ ہر آن ہر حال میں پڑھا جا سکتا ہے، آخر درود
شریف پڑھنے والا یہی تو عرض کرتا ہے کہ الٰہی تیرے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم کے بے پایاں احسانات کا بدلہ، ہمارا کیا منہ ہے کہ ادا کر سکیں، الٰہی
تو ہی ان کے ان عظیم احسانات کے صلہ میں ہماری جانب سے دنیا وآخرت میں ان
پر کثیر در کثیر رحمتیں نازل فرما اور دارین میں انہیں تمام مقربین سے بڑھ
کر تقرب نصیب کر۔
جو شخص درود شریف پڑھتا ہے وہ گویا رب کریم کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خد یا تیرے محبوبِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس کی بات نہیں تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور ان کے طفیل مجھے بھی مزید رحمتوں سے بہرہ مند کر۔
جو شخص درود شریف پڑھتا ہے وہ گویا رب کریم کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خد یا تیرے محبوبِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس کی بات نہیں تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور ان کے طفیل مجھے بھی مزید رحمتوں سے بہرہ مند کر۔
0 comments:
Post a Comment