Monday 25 March 2013

اقوام متحدہ کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وفاق کے زیرِ انتظام خیبر ایجنسی کے علاقے وادیِ تیراہ میں جھڑپوں کے نتیجے میں 40 ہزار افراد سے زیادہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تعداد میں یہ نقل مکانی گذشتہ ہفتے شروع ہوئی اور نقل مکانی کرنے والوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
نقل مکانی کرنے والے خاندان کوہاٹ، ہنگو، پشاور اور کرم ایجنسی کے علاقوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ایف ڈی ایم اے یعنی فاٹا کے قدرتی آفات سے نمٹنے کی روک تھام کے ادارے کے کارکن نقل مکانی کرنے والے افراد کا اندارج کر کے انہیں رہائشی خیمے، خوراک، اور گاڑیاں دے رہے ہیں۔
اسی طرح نقل مکانی کرنے والے بچوں کو مختلف چوکیوں پر ویکسین بھی پلائی جا رہی ہے۔
ایف ڈی ایم اے کے حکام کا کہنا ہے کہ تیراہ وادی کے باغ میدان گاؤں سے دس ہزار خاندان اس لڑائی سے متاثر ہوئے ہیں۔
انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے ادارے ان افراد کا جلوزئی، نیو درانی اور توغ سرائے کیمپوں میں اندراج کر رہے ہیں۔
جلوزئی میں اندارج اکیس مارچ کو شروع ہونا تھا مگر ایک بم دھماکے کے نتیجے میں اسے روکنا پڑا جس میں 17 افراد ہلاک جبکہ 29 زخمی ہو گئے تھے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور جیسے ہی حکومت سکیورٹی کے بارے میں اقدامات کرے گی وہ ان افراد کی امداد کے لیے کارروائیوں کا آغاز کر دیں گے۔
اس سے قبل پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ملک کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے علاقے وادی تیراہ میں خراب صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن نے ایک بیان میں وادی تیراہ میں لڑائی کے باعث نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے جلوزئی میں قائم خیمے پر گذشتہ جمعہ کو ہونے والے بم دھماکے کی مذمت کی ہے۔
فروری کے پہلے ہفتے میں خیبر کے قدرتی حسن سے مالامال علاقے تیراہ میں تختہ کائی وادی میں جب برفباری شروع ہوئی تو ساتھ ہی ساتھ چار مختلف عسکری گروہوں میں خوفناک جنگ بھی چھڑ گئی۔
اس علاقے کی دفاعی اہمیت بہت زیادہ ہے اور یہ گنجان آباد ہیں۔ یہیں سے پاکستانی فوج کے لیے شمال میں افغانستان کی سرحد کے لیے سپلائی جاتی ہے۔ اس کے جنوب میں طالبان کے زیرِ اثر اورکزئی ایجنسی کا علاقہ ہے۔
مقامی قبائلیوں نے چار سال تک عسکریت پسندوں کو روکے رکھا، لیکن اس کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان نے حریف جماعت لشکر اسلام کے ساتھ ہاتھ ملا کر قبائلی دفاع کو توڑ دیا۔

0 comments:

Post a Comment