Tuesday 26 March 2013

سعودی عرب کے ٹیلی کمیونیکشن کے نگران ادارے نے خبردار کیا ہے کہ سوشل ایپلیکشنز یا ایسے موبائل سہولیات جن سے رابطے مفت اور سہولت سے ہوتے ہیں جیسا کہ وٹس ایپ، وائبر اور سکائپ تک رسائی کو اطلاعات کے مطابق سعودی عرب میں بند کیا جا سکتا ہے۔
یہ تمام سہولیات جنہیں انکرپٹڈ میسجنگ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے یا جسے عام فہم زبان میں ایسے پیغامات کہا جا سکتا ہے جو بھیجنے والے سے وصول کرنے والے کے درمیان میں تبدیل کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں جاسوسی یا کسی اور غرض سے پڑھا نہ جا سکے۔
سعودی حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ اسے ان سہولیات پر نگرانی کرنے دی جائے مگر سعودیوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کی گفتگو اور پیغام رسانی میں رکاوٹ بن جائے گا۔
سعودی اخبارات نے لکھا ہے کہ حکومت نے ان ایپلیکیشنز کے بنانے والی کمپنیوں سے اس بارے میں وضاحت طلب کی ہے اور ان سب کو ایک ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس مطالبہ کے کرنے کے پیچھے کیا محرکات ہیں اس بارے میں حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
احمد عمران جو ایک سعودی بلاگر ہیں اور ریاض بیورسائٹ چلاتے ہیں کا کہنا ہے کہ سعودی ٹیلی کام کمپنیاں بہت حد تک ممکن ہے کہ حکومت کی جانب سے اس درخواست پر عمل کر لیں اگرچہ اس سے ان کے صارفین ناراض ہوں گے۔
احمد کے مطابق ایسا کرنا ان کمپنیوں کے مفاد میں ہے کیونکہ یہ ایپس ملک میں بہت مقبول ہیں مگر اس سے ان کمپنیوں کو کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔
ایک سعودی لکھاری ایک قدم آگے جاکر ایک عربی زبان کے اخبار میں لکھے گئے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس قدم کے پیچھے سعودی کمپنیاں ہی ہوں جنہوں نے سعودی حکومت کو ان ایپس کے خلاف یہ قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا ہو۔
یاد رہے کہ ایسا ہی قدم سعودی حکام نے کئی سال قبل بلیک بیری کی میسیجنگ سروس کو قابو میں کرنے کے لیے اٹھایا تھا۔
بی بی سی کے عرب امور کے مدیر سبیسشن اوشر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے سعودی معاشرے پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے جہاں دنیا بھر کے مقابلے میں ٹوئٹر پر سب سے زیادہ آنے والے افراد سعودی عرب سے ہی ہیں۔
اس سے سعودی شہریوں کو کھل کر کئی معاملات پر پہلے کی نسبت بہت آزادانہ طریق پر اظہارِ رائے کا موقع دیا ہے۔
ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ سعودی اس بات کو تھوڑا مختلف انداز سے دیکھتے ہیں اور سکائپ یا وٹس ایپ پر نگرانی یا ان تک رسائی کی بندش سے شاید ان کو رابطے کے کئی بنیادی زریعوں سے محروم ہونا پڑے گا جو بہت حد تک ان کے دوستوں اور عزیزوں سے رابطے کے لیے ہی استعمال ہوتے ہیں۔
ایک سعودی صارف نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ اب سکائپ پر اپنے رشتہ داروں سے حجاب کے بغیر بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گیں اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔
سعودی عرب سے باہر رہنے والے سعودی شہریوں نے مقامی اخبارات کو پیغامات میں لکھا ہے کہ وہ اس طرح کے رابطوں کے زرائع کو ختم نہ ہونے دیں۔
ایک سعودی نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر ان سہولیات تک رسائی کو بند کیا جاتا ہے تو جلد ہی لوگ مفت میں رابطہ کرنے کا کوئی اور زریعہ ڈھونڈ لیں گے۔

0 comments:

Post a Comment