Saturday 23 March 2013

Iqbal Teri Qaum Ka Kiya Haal Sunaon?

Posted by Unknown on 21:34 with No comments

نظم۔
اقبال تیری قوم کا کیا حال سناؤں۔
جو دل پہ گزرتی ھے بھلا کس کو بتاؤں۔
سورج ھوا شرمندہ طلوع ھو کے دہر میں۔
اور چاند پرشاں ھے لیۓ چاندنی اپنی۔
تارے ھزاروں بکھر گۓ ٹوٹ پھوٹ کے۔
ھر چیز ھی حیران ھے انساں کی روش پہ۔
ہیں اتنے مسلمان کے بس میں نہیں شمار۔
ھر شخص ھی اِن میں مگر دنیا کا طلبگار۔۔
جس قوم کو درس ِ خودی دیتا رھا اقبال۔
وہ قوم تو کفار کے قرضوں میں دبی ھے۔
وہ قوم جس سے شرق و غرب تھے کبھی لرزان۔
رفعت کی جو امیں تھی اب ذلت میں گھری ھے۔
جس قوم کو تو نے دیا تھا درسِ شجاعت ؟؟؟؟؟۔
وہ قوم تو ڈر کے شہر میں سہمی پڑی ھے۔


جس قوم کو تو نے دیا درسِ خود آگاھی۔
وہ قوم تو تقلید میں مغرب کی لگی ھے۔
جس قوم کے معمار کو شاھیں کہا تو نے۔
شاھین تو کرگس کے جہانوں کا مکیں ھے۔
وہ قوم جس نے صدیوں کو تاریخ تھی بخشی،
وہ قوم جو مفتوح تھی محکوم بنی ھے ۔
غیرت خودی شرم و حیا سب کچھ ہؤا رخصت۔
آ دیکھ مسلمان حکمراں کی مصلحت۔
اخلاق بھی افکار بھی کردار بھی مفقود ۔
تہذیب کی اقدار کی تعلیم ھے ممنوع۔
عشق و حسن کے راستے دولت کی محبت۔
ھے ارتقاء کا نعرہ اور یہ زاد سفر ھے۔
۔
میرے نبی کی سنتیں پامال ہوئی ہیں۔
آ دیکھ کتنی مسجدیں مسمار ہوئی ہیں۔
بنتِ حوا کی عصمتیں بھی تار ہوئی ہیں۔
اقدار اقتدار کا بیو پار ہوی ہیں۔ ؟۔
غداریاں شاھین کا بیو ہار ہوئی ہیں۔
سب قہرالہیٰ کے اب حقدار ہوۓ ہیں۔
انجامِ عاد زکرِ ثمود قومِ نوح و لوط۔
فراموش کر کے مردِ مسلماں برا کیا۔
اعلان ھے رب کا میرے قران کے اندر۔
گزری ہوی اقوام سے عبرت نہ جو پکڑیں۔
عبرت کا نشاں ان کو بنا دیتے ہیں پھر ھم۔
اس قوم کے انجام کی اب فکر لگی ھے ۔۔
۔
جانے کہاں کب بستیاں الٹا دی جایں گی۔
کب پھتروں کی بارشیں برسای جایں گی۔
کب ذلزلوں سے منہدم ھو جاۓ گا سب کچھ۔
کب بن کے موت آب بہے گا زمین پر۔
کب یہ ہواییں آندھیوں کا روپ دھار لیں۔
اِس قوم کے انجام کی اب فکر لگی ھے۔

0 comments:

Post a Comment