Wednesday, 13 March 2013


جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
کیا ہی جھنجلا کے وہ بولے کہ ہمیں اچھے ہیں

نہ اُٹھا خواب عدم سے ہمیں ہنگامہء حشر
کہ پڑے چین سے ہم زیرِ زمیں اچھے ہیں

کس بھروسے پہ کریں تجھ سے وفا کی اُمید
کون سے ڈھنگ ترے جان حزیں اچھے ہیں

خاک میں آہ ملا کر ہمیں، کیا پوچھتے ہو
خیر جس طور میں ہم خاک نشیں اچھے ہیں

ہم کو کوچے سے تمہارے نہ اُٹھائے اللہ
صدقے بس خلد کے کچھ ہم تو یہیں اچھے ہیں

نہ ملا خاک میں، تو ورنہ پشیماں ہوگا
ظلم سہنے کو ہم اے چرخ بریں اچھے ہیں

دل میں کیا خاک جگہ دوں ترے ارمانوں کو
کہ مکاں ہے یہ خراب اور مکیں اچھے ہیں

مجھ کو کہتے ہیں رقیبوں کی بُرائی سن کر
وہ نہیں تم سے بُرے بلکہ کہیں اچھے ہیں

بُت وہ کافر ہیں کہ اے داغ خدا اُن سے بچائے
کون کہتا ہے یہ غارتگر دیں اچھے ہیں

داغ دہلوی

0 comments:

Post a Comment