Friday 8 March 2013


خبر تھی گھر سے وہ نِکلا ہے مِینہ برستے میں
تمام شہر لئے چھتریاں تھا رَستے میں

بہار آئی تو اِک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جَھڑتے تھے پُھول ہنستے میں

کہاں کے مکتب و مُلّا، کہاں کے درس و نصاب
بس اِک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں

مِلا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خُود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں

یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا
کہ لوگ مِلتے بِچھڑتے رہیں گے رَستے میں

جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے
فراز ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں

0 comments:

Post a Comment