Thursday 30 May 2013

ولادت با سعادت
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ مگر قول مشہور یہی ہے کہ واقعہ ’’ اصحاب فیل ‘‘ سے پچپن دن کے بعد ۱۲ ربیع الاول مطابق ۲۰ اپریل ۵۷۱ ء ولادت باسعادت کی تاریخ ہے۔ اہل مکہ کا بھی اسی پر عملدرآمد ہے کہ وہ لوگ بارہویں ربیع الاول ہی کو کاشانۂ نبوت کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور وہاں میلاد شریف کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۱۴)

تاریخ عالم میں یہ وہ نرالا اور عظمت والا دن ہے کہ اسی روز عالم ہستی کے ایجاد کا باعث، گردش لیل و نہار کا مطلوب، خلق آدم کارمز، کشتی نوح کی حفاظت کا راز، بانی کعبہ کی دعا،ابن مریم کی بشارت کا ظہور ہوا۔
کائناتِ وجود کے الجھے ہوئے گیسوؤں کو سنوارنے والا، تمام جہان کے بگڑے نظاموں کو سدھارنے والا یعنی

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
فقیروں کا ماویٰ ، ضعیفوں کا ملجا


مولد النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم

 سند الاصفیاء، اشرف الانبیاء، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالمِ وجود میں رونق افروز ہوئے اور پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے ہوئے خوشبو میں بسے ہوئے بحالت سجدہ، مکہ مکرمہ کی مقدس سر زمین میں اپنے والد ماجد کے مکان کے اندر پیدا ہوئے۔
باپ کہاں تھے جو بلائے جاتے اور اپنے نونہال کو دیکھ کر نہال ہوتے۔ وہ تو پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ دادا بلائے گئے جو اس وقت طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔
یہ خوشخبری سن کر دادا “عبدالمطلب” خوش خوش حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوشِ محبت میں اپنے پوتے کو کلیجے سے لگا لیا۔
پھر کعبہ میں لے جا کر خیر و برکت کی دعا مانگی اور “محمد” نام رکھا۔ آپ صلی الله تعالیٰ عليه واله وسلم کے چچا ابو لہب کی لونڈی “ثویبہ” خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اور “ابو لہب” کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں شہادت کی انگلی کے اشارہ سے “ثویبہ ” کو آزاد کر دیا، جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملا کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھا اور حال پوچھا، تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ (کھانے پینے) کو نہیں ملا بجز اس کے کہ “ثویبہ” کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتا ہوں۔
(بخاری ج۲ باب و امهاتکم التی ارضعنکم)

اس موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے، جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے، وہ لکھتے ہیں کہ

اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھا اور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔
(مدارج النبوة ج۲ ص ۱۹)

0 comments:

Post a Comment