Monday, 13 May 2013

Surat-ul-Munafiqoon

Posted by Unknown on 20:43 with No comments
سورة المنافقون کا شان نزول

۵ ہجری میں بنو المصطلق کی مشہورجنگ ہوئی۔ اس میں ایک مہاجری اور ایک انصاری کی باہم لڑائی ہو گئی۔معمولی بات تھی مگر بڑھ گئی ہر ایک نے اپنی اپنی قوم سے دوسرے کے خلاف مدد چاہی اور دونوں طرف جماعتیں پیدا ہو گئیں اور قریب تھا کہ آپس میں لڑائی کا معرکہ گرم ہو جائے کہ درمیان میں بعض لوگوں نے پڑ کر صلح کرا دی عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار اور نہایت مشہور منافق اور مسلمانوں کا سخت مخالف تھا مگر چونکہ اسلام ظاہر کرتا تھا اس لئے اس کے ساتھ خلاف کا برتائو نہ کیا جاتا تھا اور یہی اس وقت منافقوں کے ساتھ عام برتائو تھا ،اس کو جب اس قصے کی خبر ہوئی تو اس نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ لفظ کہے اور اپنے دوستوں سے خطاب کر کے کہا کہ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا ہوا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے شہروں میں ٹھکانا دیا ،اپنے مالوں کو ان کے درمیان آدھوں آدھ بانٹ لیا اگر تم ان لوگوں کی مدد کرنا چھوڑ دو تو اب بھی سب چلے جاویں اور یہ بھی کہا کہ خدا کی قسم ہم لوگ اگر مدینہ پہنچ گئے تو ہم عزت والے مل کر ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ نو عمر بچے تھے ،وہاں موجود تھے یہ سن کر تاب نہ لاسکے کہنے لگے خدا کی قسم تو ذلیل ہے تو اپنی قوم میں بھی ترچھی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے تیرا کوئی حمایتی نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے ہیں رحمن کی طرف سے بھی عزت دیئے گئے ہیں اور اپنی قوم میں بھی عزت والے ہیں عبداللہ بن ابی نے کہا کہ اچھا چپکا رہ میں تو ویسے ہی مذاق میں کہہ رہا تھا ۔ مگر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جا کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر دیا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے درخواست بھی کی کہ اس کافر کی گردن اڑا دی جائے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت نہ فرمائی
عبد اللہ بن ابی کو جب اس کی خبر ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ قصہ پہنچ گیا ہے تو حاضرخدمت ہو کر جھوٹی قسمیں کھانے لگا کہ میں کوئی لفظ ایسا نہیں کہا زید رضی اﷲ عنہ نے جھوٹ نقل کر دیا ۔انصار کے بھی کچھ لوگ حاضر خدمت تھے انہوں نے بھی سفارش کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عبداللہ قوم کا سردار ہے ،بڑا آدمی شمار ہوتا ہے ایک بچہ کی بات اس کے مقابلہ میں قابل قبول نہیں ممکن ہے کہ سننے میں کچھ غلطی ہوئی ہو یا سمجھنے میں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکاعذر قبول فرمالیا حضرت زید رضی اﷲ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی کہ اس نے جھوٹی قسموں سے اپنے آپ کو سچا ثابت کر دیا اور زید رضی اﷲ عنہ کوجھٹلا دیا تو شرم کی وجہ سے باہر نکلنا چھوڑ دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی ندامت کی وجہ سے حاضر نہ ہو سکے بالآخر سورئہ منافقون نازل ہوئی جس سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی سچائی اور عبداللہ بن ابی کی جھوٹی قسموں کاحال ظاہر ہوا
حضرت زید رضی اللہ عنہ کی وقعت موافق مخالف سب کی نظروں میں بڑھ گئی اور عبداللہ بن ابی کا قصہ بھی سب پر ظاہر ہو گیا جب مدینہ منورہ قریب آیا تو عبداللہ بن اُبی کے بیٹے جن کا نام بھی عبداﷲ رضی اﷲ عنہ تھا اور بڑے پکے مسلمانوں میں سے تھے۔ مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور باپ سے کہنے لگے کہ اس وقت تک مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم عزیز ہیں اس کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ صاحبزادہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ بڑا احترام اور نیکی کا برتائو کرنے والے تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تحمّل نہ کر سکے ۔آخر اس نے مجبور ہو کر اس کا اقرار کیا کہ واللہ میں ذلیل ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم عزیز ہیں اس کے بعد مدینہ میں داخل ہو سکا
(خمیس)

0 comments:

Post a Comment