Wednesday, 10 July 2013

A Big Man بڑا آدمی

Posted by Unknown on 01:07 with No comments
بڑا آدمی
میں جب بچہ تھا تو یہ گمان کرتا کہ بڑا آدمی وہ ہے جس کا قد لمبا ہو۔ چنانچہ میں پنجوں کے بل کھڑا ہونے کی کوشش کرتا تو کبھی کسی اونچی جگہ پر کھڑا ہوتا تاکہ خود کو بڑا ثابت کرسکوں۔ جب کچھ شعور میں ارتقاء ہوا تو علم ہوا کہ بڑا آدمی وہ نہیں جس کا قد لمبا ہو بلکہ وہ ہے جس کی عمر زیادہ ہو۔ چنانچہ میں جلد از جلد عمر میں اضافے کی تمنا کرنے لگا تاکہ بڑا بن سکوں۔ جب زندگی نوجوانی کی عمر میں داخل ہوئی تو پتا چ

لا کہ بڑے آدمی کا تعلق عمر سے نہیں دولت سے ہوتا ہے ۔ جس کے پاس اچھا بنک بیلنس، لیٹسٹ ماڈل کی کاریں ، عالیشان مکان اور آگے پیچھے پھرتے نوکر چاکر ہوں تو اصل بڑا آدمی تو وہی ہوتا ہے۔ جب میں نے یہ سب کچھ حاصل کر لیا تو محسوس ہوا کہ میں ابھی تک بڑا آدمی نہیں بن پایا۔ اندر ایک خلش سی محسوس ہونے لگی۔یہ خلش اتنی بڑھی کہ راتوں کو اچانک آنکھ کھل جاتی اور یہ سوال ہتھوڑے کی طرح دماغ پر اثر انداز ہوتا۔ چنانچہ میں دوبارہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا کہ " بڑا آدمی " کون ہے؟
میں صوفیوں کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ بڑا آدمی وہ ہے جو خود کو نفس کی خواہشات سے
پاک کرلے، جوگیوں نے کہا کہ دنیا چھوڑ دو ، یہ دنیا تمہارے پیچھے چلنے لگے گی اور یوں تم بڑے آدمی بن جاؤگے۔دنیا داروں نے مادی سازو سامان میں اضافے کا مشورہ دیا۔ فلسفیوں نے علم میں اضافے کے ذریعے لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لئے کہا۔ لیکن ان میں سے کسی جواب سے تشفی نہ ہوئی کیونکہ ہر جواب انسانوں کا بنایا ہوا تھا۔
پھر خیال ہوا کہ یہ بات کیوں نہ اسی سے پوچھ لی جائے جو سب سے بڑا ہے۔ چنانچہ خدا سے لو لگائی اور اس کی کتاب اٹھالی۔ قرآن کو دیکھا تو علم ہوا کہ خدا کے نزدیک "بڑا آدمی" وہ ہے جو خدا کا تقوٰی اختیار کرلے، خود کو اپنے خالق کے سامنے ڈال دے، اپنی ہر خواہش کو اس کے حکم کے تابع کرلے، اپنا جینا ، مرنا خدا سے وابستہ کرے، اپنی جسم کی ہر جنبش پر رب کا حکم جاری کردے، اپنے کلام کے ہر لفظ کو اسکے خوف کے تابع کرلے، اپنے دل کی ہر دھڑکن اسکے یاد کے معمور کرلے۔سب سے بڑھ کر بڑا آدمی وہ ہے دنیا میں خدا کے مقابل چھوٹا بننے پر آمادہ ہوجائے ۔ اگر یہ سب ہوجائے تو خدا اس شخص کو اتنا بڑا کردیتا ہے کہ وہ پہاڑوں کی بلندیوں سے بلند ہوجاتا ہے۔

انسان کی اوسط عمر 60 سے 80 سال ہے ۔ بہت کم لوگ اس سے اوپر جاتے ہیں
اور ہم لوگ اپنی زندگی کے 25 سال ہنسی مزاق کھیل کود اور لہو لعب میں لگا جاتے ہیں
پھر باقی کے 25 سال شادی ، بچے رزق کی تلاش ، نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رہتے ہیں
اور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ہوتے ہیں تو
باقی زندگی کے آخری 25 سال بڑھاپے میں مشکلات کا سامنا ،بیماریاں ، بچوں کے غم اور ایسی ہی ہزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ہیں
یھاں تک کے جب موت کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو ہمیں یاد آتا ہے
کہ زندگی میں ایسا کچھ خاص کیا ہی نہیں
جس کو ہم اپنی منزل سمجھتے ہویے یہ زندگی گزارتے رہتے ہیں
اور پھر افسوس سے ہاتھ ملتے ہیں لیکن وہ افسوس کسی کام نہیں آتا
تو کیوں نا ابھی سے جنت کی چابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، تاکہ منزل پر پہنچ کر پچھتاوا نہ ہو
الله پاک ہم سب کو دین کو سمجھنے عمل کرنے اور پھیلانے والا بنا دے
ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کر لے اور تقویٰ والا بنا دے آمین
دعاؤں میں یاد رکھیں

0 comments:

Post a Comment