غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں
میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیںکبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
جون ایلیا
0 comments:
Post a Comment