بھاجی
جب ہم تھرڈایئر میں تھے تو
کرپال سنگھ ہمارا ساتھی تھا۔ ہم اس کو کرپالاسنگھ کہتے تھے۔ بیچارہ ایسا ہی
آدمی تھا جیسے ایک پنجابی فوک گانے والا ہوتا ہے۔ لال رنگ کا لباس پہن کے
بہت ٹیڑھا ہو کے گایا کرتا ہے۔
ایک روز ہم لاہور کے بازار انارکلی میں جا رہے تھے تو سٹیشنری کی دکانوں کے آگے ایک فقیر تھا۔ اس نے کہا بابا اللہ کے نام پر کچھ دے تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر اس نے کرپال سنگھ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بابا سائیں کچھ دے۔ تو کہنے لگا کہ بھاجی اس وقت کچھ ہے نہیں، اور اس کے پاس واقعی نہیں تھا۔ تو فقیر نے بجائے اس سے کچھ لینے کے بھاگ کر اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور گھٹ کے چبھی (معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنیا کے خزانے مجھ کو دیئے، سب کچھ تو نے لٹا دیا۔ تیرے پاس سب کچھ ہے۔ تو نے مجھے بھاجی کہہ دیا۔ میں ترسا ہوا تھا اس لفظ سے۔ مجھے آج کسی نے بھاجی نہیں کہا۔ اب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
(اشفاق احمد )
ایک روز ہم لاہور کے بازار انارکلی میں جا رہے تھے تو سٹیشنری کی دکانوں کے آگے ایک فقیر تھا۔ اس نے کہا بابا اللہ کے نام پر کچھ دے تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر اس نے کرپال سنگھ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بابا سائیں کچھ دے۔ تو کہنے لگا کہ بھاجی اس وقت کچھ ہے نہیں، اور اس کے پاس واقعی نہیں تھا۔ تو فقیر نے بجائے اس سے کچھ لینے کے بھاگ کر اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور گھٹ کے چبھی (معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنیا کے خزانے مجھ کو دیئے، سب کچھ تو نے لٹا دیا۔ تیرے پاس سب کچھ ہے۔ تو نے مجھے بھاجی کہہ دیا۔ میں ترسا ہوا تھا اس لفظ سے۔ مجھے آج کسی نے بھاجی نہیں کہا۔ اب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
(اشفاق احمد )
0 comments:
Post a Comment