Monday, 4 February 2013

پچھلے زمانہ میں ایک بادشاہ تھا اور وہ بہت موٹا تھا اس کے بدن پر بہت چربی چڑھی ہوئی تھی اور اپنے کاموں سے معذور ہو گیا تھا۔ اس نے اطبا ءکو جمع کیا اور کہا کہ کوئی مناسب تدبیر کرو کہ میرے اس گوشت میں کمی ہو کر بدن ہلکا ہو جائے۔ لیکن وہ کچھ نہ کر سکے پھر ایک ایسا شخص اس کے لیے تجو یز کیا گیا۔ جو صاحب عقل و ادب اور طبیب حاذق تھا۔ تو بادشاہ نے اس کو بلا کرحالت سے باخبر کیا اور کہا کہ میرا علاج کر دو میں تم کو مالدار کر دوں گا۔ اس نے کہا اللہ بادشاہ کا بھلا کرے میں ستارہ شناس طبیب ہوں۔ مجھے مہلت دیجئے کہ میں آج کی رات آپ کے ستاروں پر غورکرکے دیکھوں کہ کونسی دوا آپ کے ستارے کے موافق ہے وہ ہی آپ کو پلا ئی جائے گی۔ پھر وہ اگلے دن حاضر ہو ا۔ اور بولا کہ اے بادشاہ مجھے امن دیا جائے۔ بادشاہ نے کہا امن دیا گیا۔ حکیم نے کہا میں نے آپ کے ستاروں کو دیکھا وہ اس پر دلالت کر تے ہیں آپ کی عمر میں سے صرف ایک ماہ باقی رہ گیا ہے اب اگر آپ چاہیں تو میں علاج شروع کروں اور اگر آپ اس کی وضاحت چاہتے ہیں تو مجھے اپنے یہاں قید کرلیجئے۔ اگر میرے قول کی حقیقت قابلِ قبول ہو تو چھوڑ دیجئے۔ بادشاہ نے اس کو قید کر دیا۔ لیکن مرنے کا خوف ایسا طاری ہوا کہ بہت پریشان ہوگیا اور سب تفریحات بالائے طاق رکھیں اور لو گوں سے الگ رہنااختیار کر لیا اور گوشہ نشین ہوگیا۔ تنہا رہنے کا اہتمام کرنے لگا۔ جوں جوں دن گزرتے گئے اس کا غم زیادہ ہو تا گیا۔ یہاں تک کہ غم اور پریشانی کی وجہ سے اس کا جسم گھٹ گیا اور گو شت کم ہو گیا۔ جب اس طر ح اٹھائیس دن گذر گئے تو طبیب کے پاس آدمی بھیج کر اس کو نکا لا۔ بادشاہ نے کہا اب تمہاری کیا رائے ہے؟
طبیب نے کہا اللہ با دشاہ کی عزت زیادہ کرے میرا اللہ کے یہاں یہ مرتبہ نہیں ہے کہ وہ مجھے غیب کے علم پر مطلع کر دیتا۔ واللہ میں تو اپنی عمر بھی نہیں جا نتا تو آپ کی عمر کاکیا حال جان سکتا تھا۔ میرے پاس آپ کے بجز غم کے کوئی دوا نہیں تھی اور میرے اختیار میں آپ کے اوپر غم کو مسلط کرنے کی اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہیں تھی تو اس تدبیر سے آپ کے گردوں (اور دیگر اعضاء) کی چربی گھل گئی۔اب آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کتنے پتلے ہو گئے ہیں ، بادشاہ نے اپنا جائزہ لیا تو وہ بہت حیران ہوا کہ اس کا جسم ناقابل یقین حد تک گھل گیا تھا اور اس کا موٹاپا کافی حد تک ختم ہوگیا تھا
بادشاہ اس کے اس علاج سے بہت خوش ہوا اور اس کو بہت سا انعام دے کر رخصت کیا۔

0 comments:

Post a Comment