Saturday, 16 March 2013

 ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی نے ایک بار فزکس کے پرچے میں طلباء سے یہ سوال پوچھا کہ: بیرومیٹر کی مدد سے کسی فلک بوس عمارت کی اونچائی کی پیمائش کس طرح کی جا سکتی ہے؟
اس آسان سے سوال کا اتنا سا جواب بنتا ہے کہ؛ بیرومیٹر سے زمین کی سطح پر ہوا کا دباؤ ناپ لیا جائے اور اس کے بعد اس فلک بوس عمارت کی چوٹی پر سے ہوا کا دباؤ ناپ لیا جائے، ان دونوں کے فرق سے عمارت کی اونچائی کی پیمائش ہو جائے گی۔

اس سوال کے دیئے گئے جوابوں میں سے ایک طالبعلم نے کچھ ایسا مضحکہ خیز جواب دیا تھا کہ ممتحن نے باقی سوالات کے جوابات پڑھے بغیر ہی اس طالب علم کو اس امتحان میں فیل قرار دیدیا۔ یہ مضحکہ خیز جواب کچھ یوں تھا کہ: بیرومیٹر کو ایک دھاگے سے باندھ کر اس فلک بوس عمارت کی چھت سے نیچے لٹکایا جائے۔ جب بیرومیٹر زمین کو چھو جائے تو دھاگے کو نشان لگا کر بیرومیٹر واپس کھیچ لیا جائے۔ اب اس دھاگے کی پیمائش کی جائے جو کہ اس عمارت کی اونچائی کو ثابت کرے گی۔
ممتحن کو اس بات پر انتہائی غصہ تھا کہ طالبعلم نے جس گھٹیا انداز سے عمارت کی اونچائی پیمائش کرنے کا طریقہ بتایا تھا وہ ایک بہت ہی بنیادی سا طریقہ تھا جس کا نا تو اس بیرومیٹر سے کوئی تعلق تھا اور نا ہی فزکس کے کسی اصول سے۔ جبکہ طالبعلم نے اپنے فیل کیئے جانے کو ایک ظالم رویہ قرار دیا اور یونیورسٹی کو تحقیق کرنے کیلئے درخواست دیدی کہ صحیح جواب دیئے جانے کےباوجود اُسے کس لیئے فیل کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی نے اپنے قانون کے مطابق فورا اس مسئلے کے حل کیلئے
ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور ایک افسر بھی مقرر کر دیا۔

اس تحقیقاتی افسر نے اپنے سربراہ کو رپورٹ دی کہ طالبعلم کا جواب تو بالکل ٹھیک ہے مگر اس جواب سے طالب علم کی فزکس سے کسی قسم کی آگاہی نظر نہیں آتی۔ تاہم اس سربراہ نے طالب علم کو ایک موقع دینے کیلئے اپنے دفتر میں بلوا لیا۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے طالبعلم سے اسی سوال کا جواب زبانی دینے کیلئے کہا۔ طالبعلم نے کچھ دیر سوچا اور کہا؛ میرے پاس اس سوال کے کئی ایک جواب ہیں جن کی مدد سے ایک فلک بوس عمارت کی اونچائی معلوم کی جا سکتی ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کو کونسا جواب دوں؟ سربراہ نے کہا، کوئی بات نہیں، تم مجھے اپنے سارے جوابات سے ہی آگاہ کردو۔

طالب علم نے کہا؛ جی ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بیرومیٹر کو اس عمارت کی چوٹی سے زمین پر گرایا جائے۔ زمین تک پہنچنے کے وقت کو قانون تجاذب کی روشنی میں دیکھا جائے تو عمارت کی اونچائی کا بآسانی پتہ چل جائے گا۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر سورج روشن ہو تو بیرومیٹر کے بننے والے سائے کی پیمائش کر لی جائے اور اس عمارت کے سائے کی بھی پیمائش کرلی جائے جس کی اونچائی کی پیمائش کرنا مقصود ہو۔ اب بیرومیٹر کی اصل لمبائی اور اس کے بننے والے سائے کے تناسب سے عمارت کے سائے کے تناسب کے ساتھ اخذ کیا جا سکتا ہے۔

اور اگر ہم اپنے دماغ پر زیادہ زور نا ڈالنا چاہیں تو تیسرا اور سب سے آسان طریقہ طریقہ یہ ہے کہ جس عمارت کی اونچائی کی پیمائش کرنا مقصود ہو اس کے چوکیدار سے جا کر ملا جائے اور اسے کہا جائے کہ اس عمارت کی ٹھیک ٹھیک اونچائی بتادو تو یہ بیرومیٹر تمہارا ہوا۔

ایک اور چوتھا طریقہ بھی ہے مگر میرے خیال میں وہ اتنا قابل عمل نہیں ہے۔ بہرکیف اگر ہم معاملات کو اتنا الجھانے پر آمادہ ہو ہی جائیں تو وہ طریقہ یہ ہے کہ بیرومیٹر سے سطح زمین پر ہوا کا دباؤ معلوم کیا جائے اور پھر اس عمارت کی چھت پر جا کر وہاں ہوا کا دباؤ معلوم کیا جائے، دونوں دباؤ کے درمیان کا فرق اس عمارت کی اونچائی کو ظاہر کرے گا۔ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ یہی بات سننے کیلئے تو بے چین تھا، اس نے طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا شاباش بولتے رہو میں تمہیں غور سے سن رہا ہوں۔ مگر طالب علم کا خیال تھا کہ چونکہ یہ بات اتنی قابل عمل نہیں ہے اس لیئے اس کے کہنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔

اس صورتحال کے بعد طالب علم کو یونیورسٹی میں برقرار رکھا گیا۔ بعد میں نا صرف یہ طالب علم فزکس کے امتحان میں کامیاب ہوا بلکہ آنے والے دنوں میں اس نے فزکس کو وہ کچھ دیا جو پہلے ممکن نا تھا اور نوبل پرائز کا حقدار بھی بنا۔

جی، اس طالب علم کا نام نیلز ہنرک ڈیوڈ بوہر (Niels Henrik David Bohr) ہے جو کہ ڈنمارک کا مشہور ماہر طبعیات اور ایٹمی طبیعیات کا بانی تھا۔ 1916ء میں کوپن ہیگن یونیورسٹی میں نظری طبیعیات کا پروفیسر مقرر ہوا۔ 1920ء میں نظری طبیعیات کے ادارے کی بنیاد ڈالی اوراس کا پہلا ناظم منتخب ہوا۔ 1922ء میں طبیعیات کا نوبل انعام ملا۔ 1938ء میں امریکہ گیا اور امریکی سائنس دانوں کو بتایا کہ یورینیم کے ایٹم کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کرنا ممکن ہے۔ اس کے اس دعوے کی تصدیق کولمبیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کی۔ ڈنمارک واپس گیا تو ملک پر نازیوں کا تسلط ہوگیا۔ 1943ء میں امریکہ چلا گیا۔ 1944ء میں واپس ڈنمارک آیا۔ 18 نومبر 1962ء کو ڈنمارک میں اس کا انتقال ہو گیا۔

0 comments:

Post a Comment