Sunday, 7 April 2013

Sister

Posted by Unknown on 01:23 with No comments
 بہن

بالکل اچانک ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
عبدالحق بوکھلا گیا اور اسے سینے سے لپٹا کر چپ کرانے لگا۔ ”مجھ سے خفا کیوں ہوتے ہو حمید بھائی۔ میں واقعی بے وقوف ہوں۔“
”تم سے کہاں خفا ہوں۔ خود سے خفا ہوں۔ زندگی سے خفا ہوں۔ ساری دنیا سے خفا ہوں۔“ حمید روئے جارہا تھا۔ ”میری بہن تھی.... بہت پیاری تھی مجھے۔ پاکستان آتے ہوئے ٹرین پر حملہ ہوا۔ ظالموں نے میری آنکھوں کے سامنے....“ اس سے جملہ پورا نہیں کیا گیا۔ ”بہنیں تو غیرت ہوتی ہیں بھائیوں کی۔ میں نہتا ہی ان سے بھڑگیا۔ کسی نے میرے پیٹ کو چیر دیا۔ میں گرگیا، اور میری آنکھوں کے سامنے میری بہن لٹ گئی۔ میں لاشوں میں دبنے کی وجہ سے بچ گیا۔ اسپتال میں انہیں میرے ہاتھ باندھنے پڑے۔ کیونکہ میں اپنے زخم کو نوچ کر خراب کرلیتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ زخم ٹھیک ہو۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں زندہ رہوں۔ آج بھی بہن یاد آتی ہے تو میں اس زخم کو نوچتا ہوں .... یہ دیکھو۔“ اس نے پیٹ پر سے قمیض اٹھائی۔ وہ کوئی دس گیارہ انچ لمبا زخم کا نشان تھا۔ زخم مندمل ہوچکا تھا۔ لیکن اس کے ارد گرد کئی کھرنڈتھے .... کچھ کچے، کچھ پکے۔
’تم نہیں جانتے بابو صاحب یہ لڑکیاں کیا ہوتی ہیں۔ تمہاری کوئی بہن ہے؟“
”نہیں۔“ عبدالحق کی آواز رندھ گئی۔
” تو پھر تم کیسے سمجھ سکتے ہو۔ میں سمجھاتا ہوں۔ یہ معصوم چڑیاں ہوتی ہیں .... ایک آنگن میں رہنے والی .... بہت نازک .... ننھے ننھے سے دل، جو ذرا سی بات پر بری طرح دھڑکنے لگتے ہیں۔ باپ کے پاﺅں دبانے والی، ماں کا ہاتھ بٹانے والی، بھائی کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھنے والی۔ جن کے ماں باپ اور بھائی ان کے لئے اچھے گھر میں وداع ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ یہ آنگن میں پھدکتی، چہچہاتی چڑیاں، یہ معصوم بہنیں، جنہیں باپ اور بھائی کے سوا کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ وہ نہیں جانتیں کہ باہر کی دنیا کیسی ہے۔ دو ٹانکوں پر چلنے والے درندے کیسے ہوتے ہیں۔ پاکستان بنا تو ہماری بہنوں نے وہ وحشی درندے بھی دیکھ لئے، جنہیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔ میں نے اپنی بہن کو جس طرح لٹتے اور مرتے دیکھا، وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے بہت غم تھا، بہت دکھ تھا اس کا۔ مگر میں دوسروں کی بہنوں کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا کہ چلو ہم تو لٹ گئے، لیکن یہ تو خیریت سے پاکستان آگئیں .... درندوں اور درندگی سے دور۔ میں سوچتا، میری بہن معصوم تھی، معصوم ہی مری۔ اچھا ہوا، مرگئی۔ آج کے پاکستان میں ہوتی تو روز مرتی کیونکہ ہم درندوں سے دور آکر درندوں کے غلاموں اور درندگی کے پُجاریوں کے پاس آ گئے ہیں جو خود اپنی بہنوں کو اُٹھا کر ان کو سات سمندر پار درندوں کے چنگل میں اور درندگی کے جنگل میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ آتے ہیں ۔ جہاں ایک بہن کو چھیڑنے سے منع کرنے پر جوان بھائی کو سرعام قتل کر دیا جاتا ہے

0 comments:

Post a Comment