Sunday, 5 May 2013

Austrailian Lady's Conversion To Islam

Posted by Unknown on 00:44 with No comments
آسٹریلوی خاتون کا قبول اسلام

قرآنی آیات کی معجزانہ تاثیر دیکھئے کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون سورہ یٰسین کی آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئیں
عصرحاضرمیںاسلام کی جانفزاخوشبو سے جن پاکیزہ نفوس نے اپنے مشام جان کومعطر کیاہے اُن میں ایک نام ” ام امینہ بدریہ“ کا بھی آتا ہے ۔ان کی ایمان افروز داستان قبول اسلام انہی کی زبانی سنےے۔ وہ کہتی ہیں
میرے والد کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا۔ وہ پیدائشی لحاظ سے مسلمان تھے لیکن عملی طور پر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جبکہ میری والدہ بدھ دھرم کوماننے والی تھیں اور والد صاحب سے شادی کے وقت مسلمان ہوئی تھیں۔ وہ دونوں بعدمیں آسٹریلیا آ کر آباد ہو گیے تھے۔ میرا پیدائشی نام ( ٹے نی تھیا ) Tanidthea تھا۔ میں نے یونیورسٹی آف نیوانگلینڈ، آرمیڈیل سے ایم اے اکنامکس کیا اور بزنس مارکیٹنگ اور ہیومن ریسورسز کے مضامین پڑھے۔ پھر میں بطور ٹیوٹر پڑھانے لگی۔ اسی اثناءمیں شادی ہو گئی ، شادی اسلامی قانون کے مطابق ہوئی۔ میرے شوہر کمپیوٹر گرافکس ڈیزائنر تھے۔ وہ شادی کے وقت مسلمان ہوئے تھے لیکن نام کے مسلمان تھے۔ اسلام پر ہرگز عامل نہیں تھے۔
میرے باپ بھی نام کے مسلمان تھے اور انہیں دین کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ‘نہ انہوں نے ہمیں کچھ بتایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم بھی دین سے مکمل طور پر عاری تھے۔ میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں ملحد تھی۔ میں جب اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار چکی تو ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ دنیا سے میرا دل اچاٹ ہو گیا اور میں پریشانی کی حالت میں تھی۔ اس پر میں نے سوچا کہ مجھے نماز پڑھنی چاہیے جیسا کہ میں نے ایک دفعہ اپنے والد صاحب کو کہیں پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنے شوہر کو اس کے بارے میں بتایا تو اس نے اس بات کا بہت بُرا مانا۔ اس نے کہا ( نعوذ باللہ ) کوئی اللہ واللہ نہیں ہے اور نہ نماز وغیرہ کچھ ہے۔ دریں اثنا میرے والدین وفات پا گیے تھے۔
تقریبا سات سال پہلے آسٹریلیا کی نیوساوتھ ویلز سٹیٹ کے شہر آرمیڈیل کی ایک چھوٹی سی مسجد میں گئی جو کہ غیر ملکی مسلم طلبہ کیلئے تعمیر کی گئی تھی۔ وہاں سے میں نے انگلش ترجمے والا قرآن مجید پڑھنے کیلئے مستعار لیا۔ یہ قرآن مجید خادم الحرمین شریفین الملک فہد بن عبدالعزیز آل سعود ( سعودی عرب ) کی جانب سے شائع شدہ تھا۔ میں اسے گھر لے جا کر محض اس کی ورق گردانی ( Flip ) کر رہی تھی کہ سورہ یاسین کی ان آیات کا ترجمہ میرے سامنے آیا جن میں چاند اور سورج کی حرکت کے بارے میں سائنسی انداز میں بیان کیا گیا ہے: ” اور سورج اپنی معین راہ پر گردش کر رہا ہے‘ یہ اللہ عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجور کی سوکھی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ سورج کی یہ مجال کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ “
یہ ترجمہ پڑھنا تھا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گیے اور میرے جسم میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ میں نے سوچا کہ نبی ں امی تھے۔ یعنی پڑھے لکھے نہ تھے لیکن اتنے بہترین سائنسی انداز میں جو آپ انے بیان کیا ہے تو ضرور ان پر اللہ کی طرف سے وحی ہو سکتی ہے۔
بس اس لمحے میرے دل کی دنیا بدل گئی اور میں نے اللہ کی کتاب قرآن عظیم کا مطالعہ اور اس میں غور و فکر شروع کر دیا۔ میں جب بھی اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتی ہوں پہلے اپنے سابقہ عمل پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتی ہوں اور پھر ان پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں قبول اسلام کے بعد مسجد میں جاتی رہی۔ شروع شروع میں، میں پردہ نہیں کرتی تھی پھر جب نمازیوں نے مجھے بتایا کہ یہ گناہ ہے تو اسی دن سے میں نے اپنے گھر جا کر اسکارف لیا اور پہننا شروع کر دیا، نیز اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرنے لگی۔ میں نے خاصی کوشش کی کہ میں اپنے شوہر کو اسلام کے بارے میں قائل کر سکوں لیکن وہ نہ مانا، حالانکہ میری اس سے بیٹی بھی پیدا ہو چکی تھی۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ یا اسلام قبول کر لو یا مجھے چھوڑ دو۔
تب اس نے مجھے طلاق دے دی اور مجھ سے اور میری بیٹی سے دستبردار ہو گیا۔ دریں اثنا میں انٹرنیٹ پر اپنے ایک پاکستانی بھائی عبدالصمد سے چیٹنگ کرنے لگی اور ان سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی جو وہ مجھے وقتاً فوقتاً بہم پہنچاتے رہے۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ میں آسٹریلیا سے اسلام کیلئے ہجرت کر لوں۔ میں نے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اسلام لانے سے پہلے میری بیٹی کا نام ( توان وارٹ ) تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے امینہ رکھ دیا۔ میں نے اپنا نام غزوہ بدر کی نسبت سے بدریہ رکھا تھا بیٹی کے حوالے سے میں ام امینہ کہلاتی ہوں۔ میں نے اپنی بیٹی کو آسٹریلیا کے کسی سکول میں بھجوانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہاں تعلیم میں موسیقی اور ان کے پرچم کے آگے ادب و احترام کیلئے مختلف افعال کی ادائیگی شامل تھی جو کہ مجھے پسند نہیں تھی، لہٰذا میں نے اپنی بیٹی کو اپنے گھر ہی میں اسلام کی ابتدائی تعلیم و تربیت دی ہے۔
آسٹریلیا میں اکثریت عیسائی مذہب پر یقین رکھتی ہے لیکن الحمد للہ اب لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور خاص طور پر خواتین بڑی تیزی سے اسلام کی طرف آ رہی ہیں۔ چند خواتین نے مسلمانوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں۔ اکثر خواتین اپنے تحفظ اور احترام کیلئے اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہےں جو کہ صرف اسلام عطا کرتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment