دہریوں کا قبول اسلام
دہریوں
کی ایک جماعت نے امام ابوحنیفہ رح پرحملہ کردیا اور آپ کو قتل کرنا چاہا۔
آپ رح نے فرمایا کہ پہلے اس مسئلہ میں مجھ سے بحث کر لو، اسکے بعد تمہیں
اختیار ہے، انہوں نے اس بات کو منظور کرلیا۔ چنانچہ مناظرے کی تاریخ اور
وقت طے ہوگیا۔ مگر ہوا یوں کہ آپ رح مناظرے میں دیر سے پہنچے۔انہوں نے اس پر
بڑاشور غوغا کیا۔
آپ رح نے فرمایا کہ پہلے میرے بات سن لو،شاید آپ مجھے تاخیر میں معذور پائیں۔
انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے بتائیے۔
آپ رح نے فرمایا کہ آج توعجیب وغریب صورت دیکھنے میں آئی۔جب میں دریاکے کنارے پہنچا تو وہاں دور تک کشتی کا نام ونشان نہ تھا۔حیران تھا کہ کسطرح دریا عبور کروں گا۔اس اثنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت خود کٹ گیا اور اس کے تختے بن گئے، پھر بغیر کسی کاریگر اور بغیر کیلوں کے ان تختوں نے جڑناشروع کیا یہاں تک کہ کشتی تیار ہوگئی پھروہ بغیرملاح کے پانی کے دوش پر اٹھکیلیاں کرتی میرے پاس آگئی۔میں سوار ہوگیا، ہواچلنے لگی یہاں تک کہ ساحل پر آ لگی۔
دہریوں نے یہ سنا توآسمان سر پر اُٹھالیا اور کہنے لگے کہ بھلا ایسا بھی ممکن ہے کہ بغیر کاٹنے کے درخت کٹ جائے اور کشتی تیار ہو جائے اور بغیر ملاح کے کشتی چلنے لگے۔ امام صاحب رح نے فرمایا۔۔۔ بدبختو! اگر ایک درخت بغیر کاٹنے والے کے نہیں کٹ سکتا، تختے بغیرجوڑنے والے کے نہیں جڑ سکتے۔
ایک کشتی تیار ہوکر بھی بغیرملاح کے نہیں چل سکتی توکائنات کا یہ سارا نظام یہ شجر و حجر، یہ نہریں او ردریا، یہ شمس و قمر، یہ گل و گلزار، یہ حیوان اور انسان یہ ستاروں کے جھرمٹ اور کہکشاں یہ سب کچھ خود از خود وجود میں آگیا اتنا بڑاکارخانہ خود بخودچل رہا ہے،اسے کوئی چلانے وال انہیں۔ان دہریوں کے سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے تائب ہو کراسلام قبول کرلیا۔
(حیات امام ابوحنیفہ:ص136۔اہل الثناوالمجد:ص534)
آپ رح نے فرمایا کہ پہلے میرے بات سن لو،شاید آپ مجھے تاخیر میں معذور پائیں۔
انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے بتائیے۔
آپ رح نے فرمایا کہ آج توعجیب وغریب صورت دیکھنے میں آئی۔جب میں دریاکے کنارے پہنچا تو وہاں دور تک کشتی کا نام ونشان نہ تھا۔حیران تھا کہ کسطرح دریا عبور کروں گا۔اس اثنا میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت خود کٹ گیا اور اس کے تختے بن گئے، پھر بغیر کسی کاریگر اور بغیر کیلوں کے ان تختوں نے جڑناشروع کیا یہاں تک کہ کشتی تیار ہوگئی پھروہ بغیرملاح کے پانی کے دوش پر اٹھکیلیاں کرتی میرے پاس آگئی۔میں سوار ہوگیا، ہواچلنے لگی یہاں تک کہ ساحل پر آ لگی۔
دہریوں نے یہ سنا توآسمان سر پر اُٹھالیا اور کہنے لگے کہ بھلا ایسا بھی ممکن ہے کہ بغیر کاٹنے کے درخت کٹ جائے اور کشتی تیار ہو جائے اور بغیر ملاح کے کشتی چلنے لگے۔ امام صاحب رح نے فرمایا۔۔۔ بدبختو! اگر ایک درخت بغیر کاٹنے والے کے نہیں کٹ سکتا، تختے بغیرجوڑنے والے کے نہیں جڑ سکتے۔
ایک کشتی تیار ہوکر بھی بغیرملاح کے نہیں چل سکتی توکائنات کا یہ سارا نظام یہ شجر و حجر، یہ نہریں او ردریا، یہ شمس و قمر، یہ گل و گلزار، یہ حیوان اور انسان یہ ستاروں کے جھرمٹ اور کہکشاں یہ سب کچھ خود از خود وجود میں آگیا اتنا بڑاکارخانہ خود بخودچل رہا ہے،اسے کوئی چلانے وال انہیں۔ان دہریوں کے سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے تائب ہو کراسلام قبول کرلیا۔
(حیات امام ابوحنیفہ:ص136۔اہل الثناوالمجد:ص534)
0 comments:
Post a Comment