تھانیدار کے نام خط ۔ ۔ ۔ (گل نوخیز اختر)
تھانیدار صاحب!مائی نیم اِز بجلی، اینڈ آئی ایم ناٹ ٹیررسٹ.... ا ±مید ہے آپ میری شکل بھول چکے ہوں گے، ویسے بھی شکلیں آپ دیکھتے ہی کب ہیں۔گزارش ہے کہ میں کچھ دنوں سے بہت ٹینشن میں ہوں، میری صبح کی نیند اور راتوں کا چین برباد ہوگیا ہے، پہلے میں نے سوچا تھا کہ کھانسی کا سیرپ پی کر خود کشی کرلوں، لیکن پھر گرو نے سمجھایا کہ تم میری سب سے کماو ¿ چیلی ہو، اگر تم مر گئیں تو سمجھو میں بھی مرگیا۔گرو کی یہ بات سن کر میری آنکھیں نم ہوگئیں، آپ کو تو پتا ہے میں کتنی نرم دل ہوں ، میری زندگی کا تو مقصد ہی خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو خوش رکھنا ہے، سو میں نے گرو سے وعدہ کیا کہ خودکشی نہیں کروں گی بلکہ ہر قسم کے حالات کا ”مردانہ وار“ مقابلہ کروں گی۔تھانیدار صاحب!میں تھوڑا اپنے بارے میں بتاتی چلوں، میں نے اپنے فنی سفر کا آغازلالہ مشتاق کے” موت کے کنویں“ سے کیا، ا ±ن دنوں میری عمر 18 سال تھی اور میری ڈیوٹی ٹکٹوں والے پھٹے کے پاس ہوتی تھی، آپ یقین نہیں کریں گے میری ادائیں دیکھ کر صرف آدھے گھنٹے میں تین سو روپے کے ٹکٹ فروخت ہوجاتے تھے، تب چونکہ پانچ روپے کا سکہ نہیں ہوتا تھا اس لیے لوگ نوٹ وارتے تھے، آج کل تو مارتے ہیں۔شو شروع ہوتے ہی جب موت کے کنویں میں میری انٹری ہوتی تھی تودوردراز کے گاو ¿ں سے آئے ہوئے دیہاتیوں کی فرطِ جذبات سے چیخیں نکل جاتی تھیں، چک جھمرے کے ایک شیخ صاحب تو اپنی دکان کی ساری کمائی مجھ پر لٹا جاتے تھے، آج کل یہ شیخ صاحب ہمارے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور ویلیں پکڑتے ہیں۔
تھانیدار صاحب ! مجھے ٹی وی میں کام کرنے کا بہت شوق تھا، ایک چینل میں ٹرائی دی تو انہوں نے رکھنے سے صاف انکار کر دیا حالانکہ وہاں آدھے سے زیادہ میرے جیسے ہی بھرے ہوئے تھے۔لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اینکر پرسن بننے کے لیے کوششیں شروع کر دیں، سیاست سے تو میرا ویسے بھی گہرا رشتہ ہے ، میری بہت سی عادتیں سیاستدانوں سے ملتی جلتی ہیں،سیاستدانوں کی طرح میری نظر بھی صرف عوام کی جیبوں پر ہوتی ہے، سیاستدان ”لال حویلیوں“ اور ”لال ٹوپیوں“ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، میں ”لال ک ±رتی“ میں پرفارم کرتی ہوں۔سیاستدان ”نوڈیرو“ میں جلسے کرتے ہیں ، میں ”-9 ڈیروں“ پر ہجوم اکٹھا کر لیتی ہوں۔سیاستدان”رائے ونڈ“ میں سکون کی نیند سوتے ہیں، میں کسی ”رائے کے پنڈ“ میں شب بسری کا اہتمام کر لیتی ہوں۔سیاستدان” بنی گالہ“ میں دیسی ککڑ کھاتے ہیں، میں اپنے ”لالہ“ کے ہاتھ کا برائیلر نوش فرماتی ہوں۔ سیاستدان ”نائن زیرو“ پر فخر کرتے ہیں، مجھے خالی ”زیرو“ پرمان ہے۔سیاستدان ”مینارِ پاکستان“ پر جلسے کرتے ہیں، میں پورے پاکستان میں کہیں بھی ٹیلنٹ کا مظاہرہ کرلیتی ہوں۔
تھانیدار صاحب! آج آپ کے حضور درخواست لے کر آنے کی ایک بڑی خاص وجہ ہے، میں چک پھٹیچر کے ٹوانہ صاحب کی وجہ سے بہت
پریشان ہوں، پچھلے ہفتے انہوں نے مجھے اپنے بیٹے کے ولیمے میں فنکشن کے لیے شاہ کوٹ بلایا تھا، میں اپنی فیس بک فرینڈز تتلی،چمکی ، پری پیکر اورسویٹی کے ساتھ تین ویگنیں اور دو بسیں بدل کے شاہ کوٹ پہنچی تو ٹوانہ صاحب کے دو خاص ملازم ہمیں رسیو کرنے کے لیے کھوتا ریڑھی لیے وہاں موجود تھے۔میں چونکہ سب سے خوبصورت اور ینگ تھی اس لیے مجھے احتراماً کھوتے کے قریب بٹھایا گیا۔کھوتا کافی عمر رسیدہ تھا اورا ±س کی ایک ٹانگ بھی فریکچر تھی اسی لیے چلتا تھا تو ہر دو سیکنڈ بعد ریڑھی کو ”زور کا جھٹکا ہائے زوروں سے“ لگتاتھا۔میری ساری عمر 13 سو سی سی تانگے میں سفر کرتے گزری ہے لہٰذا میرے لیے یہ سفر بڑا تکلیف دہ تھا،خود کو بھی سنبھالتی تھی اور سازو سامان کا بھی دھیان رکھنا پڑ رہا تھا ورنہ اللہ جانتا ہے بیگ اور پرس وغیرہ سب گرجانے تھے۔
اللہ اللہ کرکے ہم ٹوانہ صاحب کے ڈیرے پر پہنچے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دل خوش ہوگیا اور ساری تھکن اتر گئی۔سات سات فٹ کے چھ سات درجن تماشائی ہمارا فنکشن دیکھنے آئے ہوئے تھے، آپ کو تو پتا ہے ہماری کمائی کا ذریعہ ویلیں دینے والے یہ تماشائی ہی ہوتے ہیں اس لیے ہمیں یقین ہوگیا کہ یہاں اچھی دیہاڑی لگ جائے گی۔راستے کی مٹی اور گردو غبار کی وجہ سے ہمارا سارا میک اپ خراب ہوگیا تھا لہٰذ ا ضروری تھا کہ فنکشن سے پہلے خود کو اپ ڈیٹ کیا جائے، ٹوانہ صاحب کو بھی اس بات کا احساس تھا لہٰذا ”تو ڑی والی کوٹھڑی“ ہمارے لیے خاص طور پر صاف کرائی گئی تھی۔وقت کم تھا اور مقابلہ سخت، لہٰذا میں نے اور میری سہیلیوں نے فوری طور پر پانی سے بھری ایک ”کنالی“ منگوائی، گرو کے بتائے ہوئے ایمرجنسی میک اپ کے تحت ا ±س میںآدھا کلو تبت ٹالکم پاو ¿ڈر، دو چمچ بلش آن، تین گلاس مسکارا ، ایک چھٹانک کولڈ کریم اورایک مٹھی میدہ ڈال کر چار منٹ ہلایا اور باری باری اس سے منہ دھو لیا۔ الحمد للہ ایسا روپ چڑھا کہ شیشہ دیکھتے ہی خود سے شرم آگئی۔میں نے اور میرے سٹاف نے پوری رات رقص کیا لیکن حرام ہے جو کسی نے ایک کھوٹا سکہ بھی نچھاور کیا ہو۔ جونہی تھک کر ہم سانس لینے کے لیے ر ±کتے، ٹوانہ ہنٹر نکال لیتا۔یقین کریں ناچ ناچ کر میرے پاو ¿ں میں کھلیاں پڑ گئیں، کم بختوں نے ایم پی تھری کی سی ڈی لگائی ہوئی تھی جس میں ساڑھے چار سو گانے بھرے ہوئے تھے، صبح کا سورج نکلا تو میری ساری فرینڈز فی سبیل اللہ بے ہوش ہوگئیں، ٹوانے کو پھر بھی رحم نہ آیا، مجھے کہنے لگا کہ اور ناچو۔۔۔میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا ”ٹوانہ صاحب! میں بجلی ہوں ،ایک گھنٹہ تو لوڈشیڈنگ کا موقع دیں“ بیہودہ سا قہقہہ لگا کر بولا” تم اپنے آپ کو جنریٹر پر سمجھو “۔
تھانیدار صاحب! ناچ ناچ کر میرے پٹاکے نکل گئے، کمر میں کڑل پڑ گیا ، ڈیلے باہر آگئے۔۔۔وہ تو اللہ کا شکر ہے سورج نکلا تو سارے تماشائی بے س ±دھ ہوکر ایک ایک کر کے گرتے چلے گئے۔میں نے ٹوانہ سے فنکشن کا معاوضہ طلب کیا تو گھور کر بولا”ابھی سی ڈی کی دوسری سائیڈ رہتی ہے“۔توبہ استغفار تھانیدار صاحب! اب میں اتنی بھی بھولی نہیں، مجھے پتا ہے سی ڈی کوئی کیسٹ کی طرح نہیں ہوتی ا ±س کی ایک ہی سائیڈ ہوتی ہے، لیکن وقت بڑا نازک تھا، میں نے ٹوانہ سے ناشتے کی فرمائش کی، وہ جیسے ہی ناشتہ لینے گیا، میں نے جلدی جلدی اپنی فرینڈز کو بمشکل ا ±ٹھایا اور کھوتا ریڑھی پر بٹھا کر خود ہی ڈرائیوکرتی ہوئی مین روڈ پر آگئی۔لاہور جانے والی پہلی بس تیار کھڑی تھی لیکن سواریوں سے بھری ہوئی تھی، مجبوراً ہمیں چھت پر رکھے ٹائر کے اندر بیٹھنا پڑا۔ سخت سردی اور تیز ہوا کی وجہ سے یوں لگ رہا تھا گویا ہم گیاری سیکٹر میں آگئے ہیں۔ آدھے راستے میں ہی تتلی کو نمونیہ ہوگیا،چمکی کو شدید زکام ہوگیا،پری پیکرکی نبض بند ہوگئی ، سویٹی مردانہ آواز میں گالیاں بکنے لگی اور میری نرم و ناز ک بدن کی قلفی جم گئی۔ اللہ اللہ کرکے لاہور آیا تو میں نے فوری طور پر 1122 پر فون کر کے ایمبولینس منگوائی۔
آپ سے گزارش ہے کہ ٹوانے کے خلاف ”رقص بالجبر“ کا پرچہ درج کریں اور میری پیمنٹ لے کر دیں، واپسی پر میرا کچھ سامان بھی ٹوانے کے ڈیرے پر رہ گیا ہے براہ کرم ا ±س کی بھی برآمدگی کا حکم صادر فرمائیں، سامان میں شیونگ کریم، سیفٹی ریزر،برش،دو لیلن کے سوٹ،چار لپ اسٹکیں ، ایک س ±رمے دانی، دو گولڈن سیب، ایک پازیب،322 روپے نقد اورسانڈکی کھال کا بنا ہوا ہرے رنگ کا ایک بیگ شامل ہے۔ میری سہیلیاں ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہیں، آپ چاہیں تو ان کا نزعی بیان بھی لے سکتے ہیں۔
فقط۔ ٹھنڈی ٹھار بجلی!
تھانیدار صاحب!مائی نیم اِز بجلی، اینڈ آئی ایم ناٹ ٹیررسٹ.... ا ±مید ہے آپ میری شکل بھول چکے ہوں گے، ویسے بھی شکلیں آپ دیکھتے ہی کب ہیں۔گزارش ہے کہ میں کچھ دنوں سے بہت ٹینشن میں ہوں، میری صبح کی نیند اور راتوں کا چین برباد ہوگیا ہے، پہلے میں نے سوچا تھا کہ کھانسی کا سیرپ پی کر خود کشی کرلوں، لیکن پھر گرو نے سمجھایا کہ تم میری سب سے کماو ¿ چیلی ہو، اگر تم مر گئیں تو سمجھو میں بھی مرگیا۔گرو کی یہ بات سن کر میری آنکھیں نم ہوگئیں، آپ کو تو پتا ہے میں کتنی نرم دل ہوں ، میری زندگی کا تو مقصد ہی خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو خوش رکھنا ہے، سو میں نے گرو سے وعدہ کیا کہ خودکشی نہیں کروں گی بلکہ ہر قسم کے حالات کا ”مردانہ وار“ مقابلہ کروں گی۔تھانیدار صاحب!میں تھوڑا اپنے بارے میں بتاتی چلوں، میں نے اپنے فنی سفر کا آغازلالہ مشتاق کے” موت کے کنویں“ سے کیا، ا ±ن دنوں میری عمر 18 سال تھی اور میری ڈیوٹی ٹکٹوں والے پھٹے کے پاس ہوتی تھی، آپ یقین نہیں کریں گے میری ادائیں دیکھ کر صرف آدھے گھنٹے میں تین سو روپے کے ٹکٹ فروخت ہوجاتے تھے، تب چونکہ پانچ روپے کا سکہ نہیں ہوتا تھا اس لیے لوگ نوٹ وارتے تھے، آج کل تو مارتے ہیں۔شو شروع ہوتے ہی جب موت کے کنویں میں میری انٹری ہوتی تھی تودوردراز کے گاو ¿ں سے آئے ہوئے دیہاتیوں کی فرطِ جذبات سے چیخیں نکل جاتی تھیں، چک جھمرے کے ایک شیخ صاحب تو اپنی دکان کی ساری کمائی مجھ پر لٹا جاتے تھے، آج کل یہ شیخ صاحب ہمارے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور ویلیں پکڑتے ہیں۔
تھانیدار صاحب ! مجھے ٹی وی میں کام کرنے کا بہت شوق تھا، ایک چینل میں ٹرائی دی تو انہوں نے رکھنے سے صاف انکار کر دیا حالانکہ وہاں آدھے سے زیادہ میرے جیسے ہی بھرے ہوئے تھے۔لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اینکر پرسن بننے کے لیے کوششیں شروع کر دیں، سیاست سے تو میرا ویسے بھی گہرا رشتہ ہے ، میری بہت سی عادتیں سیاستدانوں سے ملتی جلتی ہیں،سیاستدانوں کی طرح میری نظر بھی صرف عوام کی جیبوں پر ہوتی ہے، سیاستدان ”لال حویلیوں“ اور ”لال ٹوپیوں“ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، میں ”لال ک ±رتی“ میں پرفارم کرتی ہوں۔سیاستدان ”نوڈیرو“ میں جلسے کرتے ہیں ، میں ”-9 ڈیروں“ پر ہجوم اکٹھا کر لیتی ہوں۔سیاستدان”رائے ونڈ“ میں سکون کی نیند سوتے ہیں، میں کسی ”رائے کے پنڈ“ میں شب بسری کا اہتمام کر لیتی ہوں۔سیاستدان” بنی گالہ“ میں دیسی ککڑ کھاتے ہیں، میں اپنے ”لالہ“ کے ہاتھ کا برائیلر نوش فرماتی ہوں۔ سیاستدان ”نائن زیرو“ پر فخر کرتے ہیں، مجھے خالی ”زیرو“ پرمان ہے۔سیاستدان ”مینارِ پاکستان“ پر جلسے کرتے ہیں، میں پورے پاکستان میں کہیں بھی ٹیلنٹ کا مظاہرہ کرلیتی ہوں۔
تھانیدار صاحب! آج آپ کے حضور درخواست لے کر آنے کی ایک بڑی خاص وجہ ہے، میں چک پھٹیچر کے ٹوانہ صاحب کی وجہ سے بہت
پریشان ہوں، پچھلے ہفتے انہوں نے مجھے اپنے بیٹے کے ولیمے میں فنکشن کے لیے شاہ کوٹ بلایا تھا، میں اپنی فیس بک فرینڈز تتلی،چمکی ، پری پیکر اورسویٹی کے ساتھ تین ویگنیں اور دو بسیں بدل کے شاہ کوٹ پہنچی تو ٹوانہ صاحب کے دو خاص ملازم ہمیں رسیو کرنے کے لیے کھوتا ریڑھی لیے وہاں موجود تھے۔میں چونکہ سب سے خوبصورت اور ینگ تھی اس لیے مجھے احتراماً کھوتے کے قریب بٹھایا گیا۔کھوتا کافی عمر رسیدہ تھا اورا ±س کی ایک ٹانگ بھی فریکچر تھی اسی لیے چلتا تھا تو ہر دو سیکنڈ بعد ریڑھی کو ”زور کا جھٹکا ہائے زوروں سے“ لگتاتھا۔میری ساری عمر 13 سو سی سی تانگے میں سفر کرتے گزری ہے لہٰذا میرے لیے یہ سفر بڑا تکلیف دہ تھا،خود کو بھی سنبھالتی تھی اور سازو سامان کا بھی دھیان رکھنا پڑ رہا تھا ورنہ اللہ جانتا ہے بیگ اور پرس وغیرہ سب گرجانے تھے۔
اللہ اللہ کرکے ہم ٹوانہ صاحب کے ڈیرے پر پہنچے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دل خوش ہوگیا اور ساری تھکن اتر گئی۔سات سات فٹ کے چھ سات درجن تماشائی ہمارا فنکشن دیکھنے آئے ہوئے تھے، آپ کو تو پتا ہے ہماری کمائی کا ذریعہ ویلیں دینے والے یہ تماشائی ہی ہوتے ہیں اس لیے ہمیں یقین ہوگیا کہ یہاں اچھی دیہاڑی لگ جائے گی۔راستے کی مٹی اور گردو غبار کی وجہ سے ہمارا سارا میک اپ خراب ہوگیا تھا لہٰذ ا ضروری تھا کہ فنکشن سے پہلے خود کو اپ ڈیٹ کیا جائے، ٹوانہ صاحب کو بھی اس بات کا احساس تھا لہٰذا ”تو ڑی والی کوٹھڑی“ ہمارے لیے خاص طور پر صاف کرائی گئی تھی۔وقت کم تھا اور مقابلہ سخت، لہٰذا میں نے اور میری سہیلیوں نے فوری طور پر پانی سے بھری ایک ”کنالی“ منگوائی، گرو کے بتائے ہوئے ایمرجنسی میک اپ کے تحت ا ±س میںآدھا کلو تبت ٹالکم پاو ¿ڈر، دو چمچ بلش آن، تین گلاس مسکارا ، ایک چھٹانک کولڈ کریم اورایک مٹھی میدہ ڈال کر چار منٹ ہلایا اور باری باری اس سے منہ دھو لیا۔ الحمد للہ ایسا روپ چڑھا کہ شیشہ دیکھتے ہی خود سے شرم آگئی۔میں نے اور میرے سٹاف نے پوری رات رقص کیا لیکن حرام ہے جو کسی نے ایک کھوٹا سکہ بھی نچھاور کیا ہو۔ جونہی تھک کر ہم سانس لینے کے لیے ر ±کتے، ٹوانہ ہنٹر نکال لیتا۔یقین کریں ناچ ناچ کر میرے پاو ¿ں میں کھلیاں پڑ گئیں، کم بختوں نے ایم پی تھری کی سی ڈی لگائی ہوئی تھی جس میں ساڑھے چار سو گانے بھرے ہوئے تھے، صبح کا سورج نکلا تو میری ساری فرینڈز فی سبیل اللہ بے ہوش ہوگئیں، ٹوانے کو پھر بھی رحم نہ آیا، مجھے کہنے لگا کہ اور ناچو۔۔۔میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا ”ٹوانہ صاحب! میں بجلی ہوں ،ایک گھنٹہ تو لوڈشیڈنگ کا موقع دیں“ بیہودہ سا قہقہہ لگا کر بولا” تم اپنے آپ کو جنریٹر پر سمجھو “۔
تھانیدار صاحب! ناچ ناچ کر میرے پٹاکے نکل گئے، کمر میں کڑل پڑ گیا ، ڈیلے باہر آگئے۔۔۔وہ تو اللہ کا شکر ہے سورج نکلا تو سارے تماشائی بے س ±دھ ہوکر ایک ایک کر کے گرتے چلے گئے۔میں نے ٹوانہ سے فنکشن کا معاوضہ طلب کیا تو گھور کر بولا”ابھی سی ڈی کی دوسری سائیڈ رہتی ہے“۔توبہ استغفار تھانیدار صاحب! اب میں اتنی بھی بھولی نہیں، مجھے پتا ہے سی ڈی کوئی کیسٹ کی طرح نہیں ہوتی ا ±س کی ایک ہی سائیڈ ہوتی ہے، لیکن وقت بڑا نازک تھا، میں نے ٹوانہ سے ناشتے کی فرمائش کی، وہ جیسے ہی ناشتہ لینے گیا، میں نے جلدی جلدی اپنی فرینڈز کو بمشکل ا ±ٹھایا اور کھوتا ریڑھی پر بٹھا کر خود ہی ڈرائیوکرتی ہوئی مین روڈ پر آگئی۔لاہور جانے والی پہلی بس تیار کھڑی تھی لیکن سواریوں سے بھری ہوئی تھی، مجبوراً ہمیں چھت پر رکھے ٹائر کے اندر بیٹھنا پڑا۔ سخت سردی اور تیز ہوا کی وجہ سے یوں لگ رہا تھا گویا ہم گیاری سیکٹر میں آگئے ہیں۔ آدھے راستے میں ہی تتلی کو نمونیہ ہوگیا،چمکی کو شدید زکام ہوگیا،پری پیکرکی نبض بند ہوگئی ، سویٹی مردانہ آواز میں گالیاں بکنے لگی اور میری نرم و ناز ک بدن کی قلفی جم گئی۔ اللہ اللہ کرکے لاہور آیا تو میں نے فوری طور پر 1122 پر فون کر کے ایمبولینس منگوائی۔
آپ سے گزارش ہے کہ ٹوانے کے خلاف ”رقص بالجبر“ کا پرچہ درج کریں اور میری پیمنٹ لے کر دیں، واپسی پر میرا کچھ سامان بھی ٹوانے کے ڈیرے پر رہ گیا ہے براہ کرم ا ±س کی بھی برآمدگی کا حکم صادر فرمائیں، سامان میں شیونگ کریم، سیفٹی ریزر،برش،دو لیلن کے سوٹ،چار لپ اسٹکیں ، ایک س ±رمے دانی، دو گولڈن سیب، ایک پازیب،322 روپے نقد اورسانڈکی کھال کا بنا ہوا ہرے رنگ کا ایک بیگ شامل ہے۔ میری سہیلیاں ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہیں، آپ چاہیں تو ان کا نزعی بیان بھی لے سکتے ہیں۔
فقط۔ ٹھنڈی ٹھار بجلی!
0 comments:
Post a Comment