انسان اپنی خواہش پوری ہونے کی راہ میں خود حائل ہو جاتا ہے
میری
اور میری آپا کی۔۔۔ ایک بڑی بے چینی ہوتی تھی کہ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اپنی چتری
مرغی کے نیچے انڈے رکھے تھے کہ ۔ ۔ ۔ اس میں سے چوزے نکلیں گے ۔ ۔ ۔ اور ہم
دونوں اس بات کے بہت شوقین تھے۔ ۔ ۔ ۔ اب اس کے تئیس دن بعد چوزوں کو
نکلنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہم میں یہ خرابی تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر تیسرے چوتھے دن بعد
ایک دو انڈے نکال کر انہیں سورج میں کر کے دیکھتے تھے۔ ۔ ۔۔ آیا ان کے
اندر ایمبریو بنا ہے کہ نہیں۔ ۔ ۔ تو خاک اس میں سے چوزہ نکلنا تھا۔ ۔ ۔ ۔
بار بار اٹھا کے دیکھتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر جا کر رکھ دیتے تھے۔ ۔ ۔ آخر
میں ہماری والدہ نے کہنا۔ ۔ ۔ ۔ خدا کے واسطے یہ نہ کیا کرو۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے
جب آپ نے پورے ایک فریم ورک کے اندر ارادہ باندھ کے چھوڑ دیا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس
کو راستہ دو۔۔ ۔ ۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ خدا کے لیے اپنی آرزو کو راستہ
دو۔ ۔ ۔ ۔ اچھی بری جیسی کیسی ہے ۔ ۔ ۔ اس کو راستہ دو ۔ ۔ ۔ اس کے راستے
میں کھڑے نہ ہوں ۔ ۔۔ ۔ آپ اگر غور کریں گے تو۔ ۔ ۔ آپ کو محسوس ہو گا کہ ۔
۔ ۔ ۔بہت سے مقامات پر آپ خود اس کے راستے پر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور
اپنی ساری خوبیوں کو خود ہی خرابیوں میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر
الزام دوسروں کو دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اتنی تو آپ میں صلاحیت ہونی چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔
یہ الزام مجھے اپنی ذات پر دینا چاہیے ۔ ۔ ۔ دیکھیے آپ نے جب ایک چٹھی
لیٹر بکس میں ڈال دی۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر اس کے پاس جا کر کھڑے نہ ہوں کہ ۔ ۔ ۔۔
کب نکلتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکیا اسے کہاں لے جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ کیا
ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ اس خط کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر وہ
ساہیوال کبھی بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ۔ ۔ ۔ آپ بار بار پوچھیں ۔ ۔ ۔ بھئی
یہ کدھر لے جا رہا ہے ۔ ۔۔ کس گاڑی میں چڑھا دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں تو یہ
چاہتا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ تیز والی پر جائے۔ ۔ ۔ ۔ جب آپ کی خواہشیں ہوتی ہیں ۔
۔ ۔ اس میں رخنے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ آپ کر چکنے کے بعد بھی اس
میں رائے اپنی دیتے رہتے ہیں۔۔۔ میں اکثر دیکھتا ہوں اور تکلیف بھی ہوتی ہے
۔ ۔ ۔ مثلاً بچیوں کی شادیاں ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ ۔ ۔اور بہت بڑا مسئلہ
ہے۔ ۔ ۔۔ اس میں والدین کو بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ ۔۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ
جلدی ہو ۔ ۔ ۔ اور یہ ہے بھی ٹھیک بات ۔ ۔ ۔ لیکن ایک مرتبہ آرزو کر چکنے
کے بعد وہ پھر اتنا زور لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اس کو اللہ پر
چھوڑنے کی بجائے ۔ ۔ ۔ یا اس آرزو پر چھوڑنے کے بجائے ۔ ۔ ۔ ۔ جو آپ نے
اپنے اللہ کے ساتھ باندھ دی ہے ۔ ۔ ۔ پھر اس میں اپنی ذات داخل کرتے رہنا ۔
۔ ۔ اور وہ آپ کی ذات اس میں داخل ہو کر کبھی بھی آپ کی مدد نہیں کر سکتی ۔
۔ ۔ ۔
“زاویہ” اشفاق احمد
0 comments:
Post a Comment