اِعتکاف
از:حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب
(۱)
اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
(۲)
رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
(۳)
بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے؛ البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
(۴)
اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
(۵)
جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
(۶)
اگر بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
(۷)
اگر آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
(۸)
غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں۔
اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
(۲)
رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
(۳)
بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے؛ البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
(۴)
اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
(۵)
جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
(۶)
اگر بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
(۷)
اگر آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
(۸)
غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں۔
0 comments:
Post a Comment