شبِ قدر
از: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب
چونکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرمادی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی زیادہ ہے؛ لیکن اس کو پوشیدہ رکھا؛ تاکہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں اور ثواب بے حساب پائیں۔ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شبِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے یعنی ۲۱ ویں، ۲۳ ویں، ۲۵ویں، ۲۷ویں، ۲۹ویں شب۔ اور ۲۷ویں شب میں سب سے زیادہ احتمال ہے۔ ان راتوں میں بہت محنت سے عبادت اور توبہ واستغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہوتو جس قدر ہوسکے جاگے اور نفل نماز یا تلاوتِ قرآن یا ذکر وتسبیح میں مشغول رہے اور کچھ نہ ہوسکے تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے، حدیث میں آیا ہے کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہوجاتا ہے، ان راتوں کو صرف جلسوں تقریروں میں صرف کرکے سوجانا بڑی محرومی ہے، تقریریں ہر رات ہوسکتی ہیں، عبادت کا یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔
البتہ جولوگ رات بھر عبادت میں جاگنے کی ہمت کریں، وہ شروع میں کچھ وعظ سن لیں، پھر نوافل اور دعا میں لگ جائیں تو دُرست ہے۔
البتہ جولوگ رات بھر عبادت میں جاگنے کی ہمت کریں، وہ شروع میں کچھ وعظ سن لیں، پھر نوافل اور دعا میں لگ جائیں تو دُرست ہے۔
0 comments:
Post a Comment