Sunday 7 July 2013

Tiny Soldiers...ننھا سپاہی

Posted by Unknown on 21:40 with No comments
ہجرت کا دوسرا سال

ننھا سپاہی

مگر انہی بچوں میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جب ان سے واپس ہونے کو کہا گیا تو وہ مچل گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کسی طرح واپس ہونے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری دیکھ کر رحمت عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک متاثر ہو گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس ننھے سپاہی کے گلے میں بھی ایک تلوار حمائل کر دی مدینہ سے روانہ ہونے کے وقت نمازوں کے لئے حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو آپ نے مسجد نبوی کا امام مقرر فرما دیا تھا لیکن جب آپ مقام ”روحا” میں پہنچے تو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے کچھ خطرہ محسوس فرمایا اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر ان کو مدینہ واپس جانے کا حکم دیا اور حضرت عاصم بن عدی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کے چڑھائی والے گاؤں پر نگرانی رکھنے کا حکم صادر فرمایا۔

ان انتظامات کے بعد حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم “بدر” کی جانب چل پڑے جدھر سے کفار مکہ کے آنے کی خبر تھی۔ اب کل فوج کی تعداد تین سو تیرہ تھی جن میں ساٹھ مہاجراور باقی انصار تھے۔ منزل بہ منزل سفر فرماتے ہوئے جب آپ مقام “صفرا” میں پہنچے تو دو آدمیوں کو جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا تا کہ وہ قافلہ کا پتہ چلائیں کہ وہ کدھر ہے؟ اور کہاں تک پہنچا ہے؟
(زُرقانی ج۱ ص۴۱۱)

ادھر کفار قریش کے جاسوس بھی اپنا کام بہت مستعدی سے کر رہے تھے۔ جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے تو ابو سفیان کو اس کی خبر مل گئی۔ اس نے فوراً ہی “ضمضم بن عمرو غفاری” کو مکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس کی خبر کر دے تا کہ وہ اپنے قافلہ کی حفاظت کا انتظام کریں اور خود راستہ بدل کر قافلہ کو سمندر کی جانب لے کر روانہ ہو گیا۔ ابو سفیان کا قاصد ضمضم بن عمرو غفاری جب مکہ پہنچا تو اس وقت کے دستور کے مطابق کہ جب کوئی خوفناک خبر سنانی ہوتی تو خبر سنانے والا اپنے کپڑے پھاڑ کراور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوکر چلا چلا کر خبر سنایا کرتا تھا۔ ضمضم بن عمرو غفاری نے اپنا کرتا پھاڑ ڈالا اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر زور زور سے چلانے لگا کہ اے اہل مکہ! تمہارا سارا مال تجارت ابو سفیان کے قافلہ میں ہے اور مسلمانوں نے اس قافلہ کا راستہ روک کر قافلہ کو لوٹ لینے کا عزم کر لیا ہے لہٰذا جلدی کرو اور بہت جلد اپنے اس قافلہ کو بچانے کے لئے ہتھیار لے کر دوڑ پڑو۔
(زُرقانی ج۱ ص۴۱۱)

0 comments:

Post a Comment