Monday, 12 August 2013

Ghazw-e-Suveeq...غزوۂ سویق

Posted by Unknown on 01:02 with No comments
ہجرت کا دوسرا سال

غزوۂ سویق
یہ ہم تحریر کر چکے ہیں کہ جنگ ِ بدر کے بعد مکہ کے ہر گھر میں سرداران قریش کے قتل ہو جانے کا ماتم برپا تھااور اپنے مقتولوں کا بدلہ لینے کے لئے مکہ کا بچہ بچہ مضطرب اور بے قرار تھا۔ چنانچہ غزوۂ سویق اور جنگ ِ اُحد وغیرہ کی لڑائیاں مکہ والوں کے اسی جوشِ انتقام کا نتیجہ ہیں۔

عتبہ اور ابو جہل کے قتل ہو جانے کے بعد اب قریش کا سردارِ اعظم ابو سفیان تھا اور اس منصب کا سب سے بڑا کام غزوۂ بدر کا انتقام تھا۔ چنانچہ ابو سفیان نے قسم کھا لی کہ جب تک بدر کے مقتولوں کا مسلمانوں سے بدلہ نہ لوں گا نہ غسل جنابت کروں گا نہ سر میں تیل ڈالوں گا۔ چنانچہ جنگ ِ بدر کے دو ماہ بعد ذوالحجہ ۲ ھ میں ابو سفیان دو سو شتر سواروں کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف بڑھا۔ اس کو یہودیوں پر بڑا بھروسا بلکہ ناز تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ اس کی امداد کریں گے۔ اسی امید پر ابو سفیان پہلے ”حیی بن اخطب” یہودی کے پاس گیا مگر اس نے دروازہ بھی نہیں کھولا۔ وہاں سے مایوس ہو کر سلام بن مشکم سے ملا جو قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کا سردار تھااور یہود کے تجارتی خزانہ کا مینجر بھی تھا اس نے ابو سفیان کا پر جوش استقبال کیا اور حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام جنگی رازوں سے ابو سفیان کو آگاہ کر دیا۔ صبح کو ابوسفیان نے مقام ”عریض” پر حملہ کیا یہ بستی مدینہ سے تین میل کی دوری پر تھی، اس حملہ میں ابو سفیان نے ایک انصاری صحابی کو جن کا نام سعد بن عمرو رضی ﷲ تعالیٰ عنہ تھا شہید کر دیا اور کچھ درختوں کو کاٹ ڈالا اور مسلمانوں کے چند گھروں اور باغات کو آگ لگا کر پھونک دیا، ان حرکتوں سے اس کے گمان میں اس کی قسم پوری ہو گئی۔
جب حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کا تعاقب کیا لیکن ابو سفیان بدحواس ہو کر اس قدر تیزی سے بھاگا کہ بھاگتے ہوئے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ستو کی بوریاں جو وہ اپنی فوج کے راشن کے لئے لایا تھا پھینکتا چلا گیا جو مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ عربی زبان میں ستو کو سویق کہتے ہیں اسی لئے اس غزوہ کا نام غزوہ سویق پڑ گیا۔
(مدارج جلد۲ ص۱۰۴)

0 comments:

Post a Comment