Tuesday, 13 August 2013

ہجرت کا تیسرا سال

حضرت مصعب بن عمیر بھی شہید

پھر بڑا غضب یہ ہوا کہ لشکر اسلام کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر ابن قمیئہ کافر جھپٹا اور ان کے دائیں ہاتھ پر اس زور سے تلوار چلا دی کہ ان کا دایاں ہاتھ کٹ کر گر پڑا۔ اس جاں باز مہاجر نے جھپٹ کر اسلامی جھنڈے کو بائیں ہاتھ سے سنبھال لیا مگر ابن قمیئہ نے تلوار مار کر ان کے بائیں ہاتھ کو بھی شہید کر دیا دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے مگر حضرت عمیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اپنے دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے کھڑے رہے اور بلند آواز سے یہ آیت پڑھتے رہے کہ

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ط

پھر ابن قمیئہ نے ان کو تیر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جو صورت میں حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ مشابہ تھے ان کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھ کر کفار نے غل مچا دیا کہ (معاذ ﷲ) حضور تاجدارِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قتل ہو گئے۔
ﷲ اکبر! اس آواز نے غضب ہی ڈھا دیا مسلمان یہ سن کر بالکل ہی سراسیمہ اور پرا گندہ دماغ ہو گئے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں میں تین گروہ ہو گئے۔ کچھ لوگ تو بھاگ کر مدینہ کے قریب پہنچ گئے، کچھ لوگ سہم کر مردہ دل ہوگئے جہاں تھے وہیں رہ گئے اپنی جان بچاتے رہے یا جنگ کرتے رہے، کچھ لوگ جن کی تعداد تقریباً بارہ تھی وہ رسول ﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ اس ہلچل اور بھگدڑ میں بہت سے لوگوں نے تو بالکل ہی ہمت ہار دی اور جو جاں بازی کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے وہ بھی دشمنوں کے دو طرفہ حملوں کے نرغے میں پھنس کر مجبور و لاچار ہو چکے تھے۔ تاجدار دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ اور کس حال میں ہیں؟ کسی کو اس کی خبر نہیں تھی۔

حضرت علی شیر خدا رضی ﷲ تعالیٰ عنہ تلوار چلاتے اور دشمنوں کی صفوں کو درہم برہم کرتے چلے جاتے تھے مگر وہ ہر طرف مڑ مڑ کر رسول ﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے تھے مگر جمالِ نبوت نظر نہ آنے سے وہ انتہائی اضطراب و بے قراری کے عالم میں تھے۔ حضرت انس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے چچا حضرت انس بن نضر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ لڑتے لڑتے میدان جنگ سے بھی کچھ آگے نکل پڑے وہاں جا کر دیکھا کہ کچھ مسلمانوں نے مایوس ہوکر ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔ حضرت انس بن نضر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اب ہم لڑ کر کیا کریں گے؟ جن کے لئے لڑتے تھے وہ تو شہید ہو گئے۔ حضرت انس بن نضر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر واقعی رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم شہید ہو چکے تو پھر ہم ان کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے؟ چلو ہم بھی اسی میدان میں شہید ہو کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ دشمنوں کے لشکر میں لڑتے ہوئے گھس گئے اور آخری دم تک انتہائی جوشِ جہاد اور جان بازی کے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو اسّی سے زیادہ تیر و تلوار اور نیزوں کے زخم ان کے بدن پر تھے کافروں نے ان کے بدن کو چھلنی بنا دیا تھا اور ناک، کان وغیرہ کاٹ کران کی صورت بگاڑ دی تھی، کوئی شخص ان کی لاش کو پہچان نہ سکا صرف ان کی بہن نے ان کی انگلیوں کو دیکھ کر ان کو پہچانا۔
(بخاری غزوه اُحد ج۲ ص۵۷۹ و مسلم جلد ۲ ص۳۸)

اسی طرح حضرت ثابت بن دحداح رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے مایوس ہو جانیوالے انصاریوں سے کہا کہ اے جماعت انصار! اگر بالفرض رسول اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہید بھی ہو گئے تو تم ہمت کیوں ہار گئے؟ تمہارا ﷲ تو زندہ ہے لہٰذا تم لوگ اٹھو اور ﷲ کے دین کے لئے جہاد کرو، یہ کہہ کر آپ نے چند انصاریوں کو اپنے ساتھ لیا اور لشکر کفار پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ آور ہو گئے اور آخر خالد بن ولید کے نیزہ سے جام شہادت نوش کر لیا۔
(اصابه، ترجمه ثابت بن دحداح)

جنگ جاری تھی اور جاں نثاران اسلام جو جہاں تھے وہیں لڑائی میں مصروف تھے مگر سب کی نگاہیں انتہائی بے قراری کے ساتھ جمال نبوت کو تلاش کرتی تھیں، عین مایوسی کے عالم میں سب سے پہلے جس نے تاجدار دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جمال دیکھا وہ حضرت کعب بن مالک رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی خوش نصیب آنکھیں ہیں، انہوں نے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پہچان کر مسلمانوں کو پکارا کہ اے مسلمانو! ادھر آؤ، رسول خدا عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ ہیں، اس آواز کو سن کر تمام جاں نثاروں میں جان پڑ گئی اور ہر طرف سے دوڑ دوڑ کر مسلمان آنے لگے،کفار نے بھی ہر طرف سے حملہ روک کر رحمت عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کرنے کے لئے سارا زور لگا دیا۔ لشکر کفار کا دل بادل ہجوم کے ساتھ امنڈ پڑا اور بار بار مدنی تاجدار صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر یلغار کرنے لگا مگر ذوالفقار کی بجلی سے یہ بادل پھٹ پھٹ کر رہ جاتا تھا۔

0 comments:

Post a Comment