ہجرت کا تیسرا سال
ناگہاں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا
کفار کی بھگدڑ اور مسلمانوں کے فاتحانہ قتل و غارت کا یہ منظر دیکھ کر وہ پچاس تیر انداز مسلمان جو درہ کی حفاظت پر مقرر کئے گئے تھے وہ بھی آپس میں ایک دوسرے سے یہ کہنے لگے کہ غنیمت لوٹو، غنیمت لوٹو، تمہاری فتح ہو گئی۔ ان لوگوں کے افسر حضرت عبدﷲ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر چند روکا اور حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلایا اور فرمانِ مصطفوی کی مخالفت سے ڈرایا مگر ان تیر انداز مسلمانوں نے ایک نہیں سنی اور اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ لشکر کفار کا ایک افسر خالد بن ولید پہاڑ کی بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ درہ پہرہ داروں سے خالی ہو گیا ہے فورا ً ہی اس نے درہ کے راستہ سے فوج لا کر مسلمانوں کے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ حضرت عبدﷲ بن جبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے چند جان بازوں کے ساتھ انتہائی دلیرانہ مقابلہ کیا مگر یہ سب کے سب شہید ہو گئے۔ اب کیا تھا کافروں کی فوج کے لئے راستہ صاف ہو گیا خالد بن ولید نے زبردست حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر بھاگتی ہوئی کفارِ قریش کی فوج بھی پلٹ پڑی۔ مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے پیچھے پھر کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں اور کفار آگے پیچھے دونوں طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر رہے تھے اور مسلمانوں کا لشکر چکی کے دو پاٹوں میں دانہ کی طرح پسنے لگا اور مسلمانوں میں ایسی بدحواسی اور ابتری پھیل گئی کہ اپنے اور بیگانے کی تمیز نہیں رہی۔ خود مسلمان مسلمانوں کی تلواروں سے قتل ہوئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود مسلمانوں کی تلوار سے شہید ہوئے۔ حضرت حذیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ چلاتے ہی رہے کہ ”اے مسلمانو! یہ میرے باپ ہیں، یہ میرے باپ ہیں۔” مگر کچھ عجیب بدحواسی پھیلی ہوئی تھی کہ کسی کو کسی کا دھیان ہی نہیں تھا اور مسلمانوں نے حضرت یمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔
کفار کی بھگدڑ اور مسلمانوں کے فاتحانہ قتل و غارت کا یہ منظر دیکھ کر وہ پچاس تیر انداز مسلمان جو درہ کی حفاظت پر مقرر کئے گئے تھے وہ بھی آپس میں ایک دوسرے سے یہ کہنے لگے کہ غنیمت لوٹو، غنیمت لوٹو، تمہاری فتح ہو گئی۔ ان لوگوں کے افسر حضرت عبدﷲ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر چند روکا اور حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلایا اور فرمانِ مصطفوی کی مخالفت سے ڈرایا مگر ان تیر انداز مسلمانوں نے ایک نہیں سنی اور اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ لشکر کفار کا ایک افسر خالد بن ولید پہاڑ کی بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ درہ پہرہ داروں سے خالی ہو گیا ہے فورا ً ہی اس نے درہ کے راستہ سے فوج لا کر مسلمانوں کے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ حضرت عبدﷲ بن جبیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے چند جان بازوں کے ساتھ انتہائی دلیرانہ مقابلہ کیا مگر یہ سب کے سب شہید ہو گئے۔ اب کیا تھا کافروں کی فوج کے لئے راستہ صاف ہو گیا خالد بن ولید نے زبردست حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر بھاگتی ہوئی کفارِ قریش کی فوج بھی پلٹ پڑی۔ مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے پیچھے پھر کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں اور کفار آگے پیچھے دونوں طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر رہے تھے اور مسلمانوں کا لشکر چکی کے دو پاٹوں میں دانہ کی طرح پسنے لگا اور مسلمانوں میں ایسی بدحواسی اور ابتری پھیل گئی کہ اپنے اور بیگانے کی تمیز نہیں رہی۔ خود مسلمان مسلمانوں کی تلواروں سے قتل ہوئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود مسلمانوں کی تلوار سے شہید ہوئے۔ حضرت حذیفہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ چلاتے ہی رہے کہ ”اے مسلمانو! یہ میرے باپ ہیں، یہ میرے باپ ہیں۔” مگر کچھ عجیب بدحواسی پھیلی ہوئی تھی کہ کسی کو کسی کا دھیان ہی نہیں تھا اور مسلمانوں نے حضرت یمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔
0 comments:
Post a Comment