Saturday, 2 March 2013

میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے

میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا

آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے
میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا

پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی باتیں

نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح

اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح

پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی وِداع

صندلی پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی
ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا

دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا

مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر

اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا ندیم
نوکِ دشتاں سے کھنچی تھی میری مٹی کی لکیر

آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے لوگو

اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو

کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا

0 comments:

Post a Comment