شک
‘ ایمان کی نفی ہے۔ وسوسہ ‘ یقین کا گھُن ہے۔ اگر عاقبت اور خدا پر یقین
نہ ہو ‘ تو خیال پراگندہ ہو جاتا ہے۔ پراگندہ خیال سماج میں انتشار پیدا
کرتا ہے۔ جب تک انسان کو اپنے عقیدے پر مکمل اعتماد اور اعتقاد نہ ہو ‘ وہ
حقیقت کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے
ہم من حیث القوم بھی یقین سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم میں بلند فکری کا فقدان ہے
اور نتیجہ یہ ہے کہ ہم آپس میں بحث مباحثہ کرتے ہیں ‘ الجھتے ہیں
ہمیں
اپنے وسوسوں سے نجات چاہیے۔ ہمیں اپنے دل سے اپنے عقیدے پر اعتقاد کرنا
ہے۔ خدا سے دولتِ یقین کا سوال کرنا ہے۔ الہٰی ! ہمیں پھر سے وہی یقین دے۔
ہمیں پھر سے اپنا بنا۔ ہمیں پھر وہی جلوے دکھا۔ ہمارے دلوں کو پھر سے نورِ
ایمان عطا کر۔ ہمیں ہمارے گمانوں سے بچا۔ ہم شبہات کی دلدل میں پھنس گئے
ہیں۔ ہم شکوک کے تاریک راستوں پر آ نکلے ہیں۔ الہٰی ! ہمیں عطا کر‘ پھر سے
کوئی صاحبِ یقین راہنما۔ ہم اپنی آرزوئوں کی کثرت کا شکار ہو گئے ہیں۔یقین
کی وحدت عطا فرما۔ یقین کبھی متزلزل نہیں ہوتا۔ اُس کے پائوں ڈگمگاتے نہیں۔
اُس کے اعتقاد میں لغزش نہیں آتی۔ اسے کوئی دبدبہ ڈرا نہیں سکتا۔ اُسے
کوئی پیشکش لُبھا نہیں سکتی۔
گمانوں
کے لشکر میں یقین کاثبات ایسے ہے ‘ جیسے یزیدی فوج کے سامنے امام حسین ؑ
کا ایمان‘تاریکی کے حصار میں روشنی کا گلاب‘ یقینِ بے گماں کا کرشمہ‘ دولتِ
لازوال کا معراجِ کمال۔
غصہ اعتماد میں کمی کا نام ہے
اپنے محسن کو یاد رکھنا اس طرح ہے جس طرح خدا کو یاد رکھنا
0 comments:
Post a Comment