شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ
ایک
بادشاہ دریا کی سیر کیلئے گیا،اور اپنے غلاموں اور مصاحبوں کے ساتھ کشتی
میں بیٹھا۔ ایک غلام ایسا تھا جس نے اس سے پہلے نہ کبھی دریا دیکھا تھا اور
نہ کشتی میں سفر کیا تھا،اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا اور فرط خوف سے
گریہ و زاری کرنے لگااس کی بزدلی دیکھ کر بادشاہ کی نازک طبع مکدر ہوئی،
اور سیر کا مزہ کرکرا ہوگیا،
ایک دانا بھی کشتی میں بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے عرض کی کہ اگر آپ حکم دیں تواسے خاموش کروا دوں؟
بادشاہ نے کہا نہایت عنایت اور مہربانی ہوگی
دانا کے اشارے پر دوسرے ملازموں نےا س غلام کو دریا میں پھینک دیا۔ جب چند غوطے کھا چکا ، تو بالوں سے پکڑ کر کشتی میں لے آئے،اب وہ چپکے سے کشتی کے ایک کونے میں دبک گیا، بادشاہ کو دانا کی تدبیر بہت پسند آئی۔ پوچھا کہ اس میں کیا حکمت تھی؟؟
دانا نے کہا کہ" اس غلام نےکبھی ڈوبنے کی تکلیف نہیں اٹھائی تھی، اور کشتی کا آرام نہیں جانتا تھا۔ آرام اور سلامتی کی قدر وہی شخص جان سکتا ہے جو کسی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہو"
ایک دانا بھی کشتی میں بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے عرض کی کہ اگر آپ حکم دیں تواسے خاموش کروا دوں؟
بادشاہ نے کہا نہایت عنایت اور مہربانی ہوگی
دانا کے اشارے پر دوسرے ملازموں نےا س غلام کو دریا میں پھینک دیا۔ جب چند غوطے کھا چکا ، تو بالوں سے پکڑ کر کشتی میں لے آئے،اب وہ چپکے سے کشتی کے ایک کونے میں دبک گیا، بادشاہ کو دانا کی تدبیر بہت پسند آئی۔ پوچھا کہ اس میں کیا حکمت تھی؟؟
دانا نے کہا کہ" اس غلام نےکبھی ڈوبنے کی تکلیف نہیں اٹھائی تھی، اور کشتی کا آرام نہیں جانتا تھا۔ آرام اور سلامتی کی قدر وہی شخص جان سکتا ہے جو کسی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہو"
0 comments:
Post a Comment