Monday, 12 August 2013

ہجرت کا تیسرا سال

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے یہود کی امداد کو ٹھکرا دیا

شہر سے نکلتے ہی آپ نے دیکھا کہ ایک فوج چلی آ رہی ہے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟
لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ رئیس المنافقین عبدﷲ بن اُبی کے حلیف یہودیوں کا لشکر ہے جو آپ کی امداد کے لئے آ رہا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ

“ان لوگوں سے کہہ دو کہ واپس لوٹ جائیں۔ ہم مشرکوں کے مقابلہ میں مشرکوں کی مدد نہیں لیں گے۔”
(مدارج جلد۲ ص۱۱۴)

چنانچہ یہودیوں کا یہ لشکر واپس چلا گیا۔ پھر عبدﷲ بن اُبی (منافقوں کا سردار) بھی جو تین سو آدمیوں کو لے کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ آیا تھا یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ محمد (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا اور میری رائے کے خلاف میدان میں نکل پڑے، لہٰذا میں ان کا ساتھ نہیں دوں گا۔
(مدارج جلد۲ ص۱۱۵)

عبدﷲ بن اُبی کی بات سن کر قبیلہ خزرج میں سے ”بنو سلمہ” کے اور قبیلۂ اوس میں سے ”بنو حارثہ” کے لوگوں نے بھی واپس لوٹ جانے کا ارادہ کر لیا مگر ﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں اچانک محبت اسلام کا ایسا جذبہ پیدا فرما دیا کہ ان لوگوں کے قدم جم گئے۔ چنانچہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

َاِذْهَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَـلَا لا وَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا ط وَ عَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ.
(آلِ عمران)


جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کر جائیں اور ﷲ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو ﷲ ہی پر بھروسا ہونا چاہیے

اب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر میں کل سات سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم رہ گئے جن میں کل ایک سو زرہ پوش تھے اور کفار کی فوج میں تین ہزار اشرار کا لشکر تھا جن میں سات سو زرہ پوش جوان، دو سو گھوڑے، تین ہزار اونٹ اور پندرہ عورتیں تھیں۔

شہر سے باہر نکل کر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی فوج کا معائنہ فرمایا اور جو لوگ کم عمر تھے، ان کو واپس لوٹا دیا کہ جنگ کے ہولناک موقع پر بچوں کا کیا کام؟

0 comments:

Post a Comment